شام کو چھوٹے بیٹے نے پوچھا بابا آپ کو پتہ ہے پشاور میں کیا ہوا ؟ پھر کہنے لگا کہ ہم نے اسکول میں شہید بچوں کیلیے دعا مانگی تھی. دل میں کچھ اطمینان ہوا کہ اسکولوں میں بھی درد محسوس کیا گیا.
مگر پھر خیال آیا کہ میرا بیٹا بھی تو حفظ کی کلاس میں ہی ہے تو حافظ بچوں نے ہی کلاس میں دعا کی نا۔
ظلم اور درد کو محسوس کرنے کی تفریق نجانے کیوں ہمارے معاشرے میں سرایت کرنے لگی ہے ۔ میڈیا سے لے کر حکومت، سیاستدانوں اور پولیس افسران تک ۔۔۔ سب نے ہی اس سانحے پر افسوسناک رویہ اپنایا ہے ۔
مجھے کسی معروف دیسی لبرل ایکٹوسٹ ، سیکولرسٹ ، اور ہیومن ازم کے پرچارک کی وال پر ان معصوم بچوں کا نوحہ نظر نہیں آیا ۔ حالانکہ بچے سانجے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ظلم ظلم ہوتا ہے ۔
میں بہت سے اسلامسٹس کی وال دیکھتا ہوں جہاں ہزارہ کے شعیہ، گلگت کے آغا خانیوں، اے پی ایس کے کیڈٹ بچوں، پاک فوج کے شہید جوانوں سمیت ملک میں ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھتی نظر آتی ہے ۔۔ اور بہت سے یقینا ایسا نہیں بھی کرتے ۔ مگر ایسا نہیں کہ ہوتا کہ مدرسہ کے بچوں کے چیتھڑے اڑا دئے جائیں اور سب لبرلز کی سال پر ہو کا عالم اور سناٹا ہو ۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی پشتون کونسل نے تو حد ہی مچائی کہ پشتون بچے مرے مگر اپنی میوزیکل نائٹ مؤخر کرنا (کینسل نہیں کہہ رہا ) ملتوی کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی ۔
کاش کہ ہم سب لبرلز سیکولرز سرخے اسلام پسند کی اپنی اپنی تقسیم برقرار رکھتے ہوئے اس بات پر متفق ہوجاییں کہ ہمیشہ ظلم کےخلاف یک آواز و یک زبان ہونگے ۔ ظالم کے مقابل مظلوم کےساتھ ہونگے ۔ اپنے دین اور وطن کی حرمت کے پاسبان ہونگے ۔۔ باقی اپنا اپنا منجن اپنے اپنے دلائل کے ساتھ بے شک بیچتے رہیں ۔