توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معاملے میں فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ پر کچھ مہربانوں کی پیشانی پر بل پڑگئے ہیں اور کچھ مہربان بلبلا بھی رہے ہیں۔ کچھ صاحبان دانش ان کا لایف اسٹائل سمجھنے کی تلقین کر رہے ہیں اور کچھ آزادی ء اظہار پر لیکچر دے رہے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ سیدھا سا ہے کہ اگر وہ ہمارے آقائے نام دار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں گستاخی نہ کریں ہماری دل آزاری نہ کریں ہمیں کیا پڑی ہے کہ ان سے کچھ تعرض رکھیں، ان کے ساتھ تجارت بند کریں یا کی مصنوعات پر تھوکتے پھریں۔ اصل بات یہ ہے کہ بائیکاٹ ان کی دکھتی رگ ہے جس پر وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانئل میخرون بائیکاٹ پر افسوس کا اظہار کر رہا ہے اور ہمارے کچھ دوست دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں کہ کھجلی کی دوا بھی فرانس کی ہے بائیکاٹ کرو؟
ایک دوست اگسٹا آبدوز نکال لائے کہ اسکا بھی بائیکاٹ کر کے دکھائیں ایک کو پاک فضائیہ کے میراج طیارے یاد آگئے..
بھائیو! غیر مسلموں سے تجارت تعلقات کی ممانعت نہیں یے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں بھی یہودیوں سے بھی کاروبار ہوتا تھا نقد ادھار کا معاملہ بھی چلتا تھا… وعدے وعید بھی ہوتے رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی معاہدے کئے قول دیئے اور جنگ و قتال بھی کیا، فیصلے صورتحال کے مطابق کئے جاتے ہیں جب معاہدہ ضروری تھا معاہدہ کیا گیا ٹیبل ٹاک کی گئی جب شمشیر بے نیام کئے بنا بات بنتی نہیں دکھائی دی تھی شمشیریں لہرائی گئیں… اس وقت ہمیں کمزور سمجھ لیں ہم ان ظالموں سے الجھنے کی سکت نہیں رکھتے تو جتنا کر سکتے کیا اتنا بھی نہ کریں!