ADVERTISEMENT
وہ نظمیں جو کہانی ہو جاتی ہیں مجھے زیادہ لبھاتی ہیں ۔ طویل نظم کہنے والے کہانی اور کہانی کے اسی بھید کو لے کر زمانوں اور زمینوں کی لمبی مسافت پر نکلتے ہیں تو زندگی کے کچھ ایسے پہلو سجھا دیتے ہیں جس طرف عام طور پر دھیان تک نہیں جاتا۔پچھلے کچھ عرصے میں اردو میں بہت عمدہ طویل نظمیں لکھی گئی ہیں اسی ذیل میں نوجوان شاعر نوید ملک نے بھی اپنا نام لکھوا لیا ہے ۔ شکریہ نوید ملک آپ نے اپنی طویل نظم ” منقوش ” عطا کی۔ میں نے جب یہ نظم پڑھی تو ماننا پڑا کہ یہ محض طویل نظم نگار کہوانے کو نہیں کہی گئی ہے۔ فکری سطح پر کچھ ان کے قضیے ہیں جو انہیں الجھاتے رہے ہیں اور ان الجھنوں کی تفہیم وہ اس نظم کے وسیلے سے کرنے نکلے ہیں ۔ جو سوالات انہیں بے چین رکھتے تھے یہ لگ بھگ ویسے ہی تھے جو حالی اور اقبال سے لے کر اب تک اہم چلے آرہے ہیں ۔ حالی نے کہا تھا”پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے” اور اقبال کا “شکوہ” تھا :”اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں/بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں”۔ اسی روایت میں رہ کر نوید ملک اپنے سوالات کچھ یوں متشکل کرتے ہیں: ” جو بابا سبز کپڑوں میں دعائیں دے رہا ہے بے اثر کیوں ہے؟”یا”جو بچہ ماں کے سینے سے لپٹ کر زندگی کی آخری ہچکی سے اٹکا ہے دعائیں لے رہا ہے بے اثر کیوں ہے؟ نوید ملک اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا اب آسمان کے دروازوں پر قفل پڑ چکے ہیں ؟” وہ ان سوالات سے الجھتے ہیں اور روایت سے جڑی ہوئی فکر میں جوابات تلاش کرتے ہیں ایسی فکر جس میں مرعوبیت ہے نہ کچھ نئی فکر سے اخذ کرنے کی جستجو ۔ جہاں وہ ایک فکری روایت سے جڑے ہوئے ہیں وہیں وہ جدید نظم کہتے ہوئے بھی اپنی روایت سے پچھڑتے نہیں ہیں ۔ زبان کا معاملہ ہو یا مصرع سنوارنے کا سلیقہ اسی روایت کے اندر رہ کر وہ اپنی شعری جمالیات متشکل کررہے ہیں ۔ یہی شعری جمالیات اس قاری کی دلچسپی بھی بٹورے رکھتی ہے جسے “نیا آدمی” ہونے کے سبب ان سے فکری فاصلے پر ہوتا ہے۔ حالاں کہ نظم میں اس نئے آدمی کو ” ڈارون کے خط پڑھ کر جواں ہوتی بندروں کی آدم خور نسل” کہا گیا ہے۔
خیر نظم ایسی ہے کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ نوجوان شاعر مضبوط مگر گودے والا مصرع کہنے اور اس میں شدت اور حسن ایک ساتھ رکھ لینے کا ہنر جانتا ہے۔احسان اکبر صاحب نے درست فرمایا ہے کہ” نظم پڑھنے پر احساس ہوتا ہے کہ نوید ملک غیر معمولی فنکار ہے۔”