میں نے کہا بالکل بھی نہیں۔ Beth نے آدھے گھنٹے میں میرا انٹرویو کر ڈالا۔ اپنے بارے میں اس نے بتایا کہ اس نے Boston University سے بیچلرز کیا تھا۔ اب وہ Anthropolygy میں ماسٹرز کرنا چاہتی ھے۔ اس کے لیے اسے پیسے چاہیں۔اپنی یونیورسٹی کی فیس کے پیسے جمع کرنے کے لیے وہ جاپان میں انگلش ٹیچنگ کی job کر رہی ھے۔ اسے زبانیں سیکھنے کا شوق ھے۔ مختلف مذاہب کے بارے میں جاننا اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرنا اس کے مشاغل میں شامل تھا۔ اسے پاکستان کے بارے میں کئ علط فہمیاں تھیں جو میں نے دور کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امریکی معاشرے کے بارے میں اس نے میرے کئ سوالات کے بہت خود اعتمادی کے ساتھ جوابات دیے۔وہ ایک بہت مذہبی لڑکی تھی۔ اور بائبل سے متعلق گانے گاتی تھی اور اپنے آپ کو Gospel singer کہتی تھی۔ اس کا تعلق عیسائیوں کے Protestant فرقے سے تھا۔۔اس نے مجھے بتایا کہ جاپان میں اس کا حلقہ احباب بہت بڑا ھے۔ اور وہ مجھے دیگر کئ غیر ملکی انگلش ٹیچرز سے ملوا سکتی ھے۔مجھے ابھی تک صرف فیکٹری میں بولی جانے والی زبان آتی تھی۔ میری جاپانی زبان کی vocabulary بہت محدود تھی۔ اور اس علاقے میں میری زیادہ لوگوں سے واقفیت نہ تھی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اسے کہا کہ میں ضرور ملنا چاہوں گا۔ اس نے کہا کہ وہ ہر اتوار کو صبح چرچ جاتی ھے۔ اور چرچ کے بعد وہ مجھے کچھ لوگوں سے ملواۓ گی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے فون نمبر دے دیے۔
یہ نئ فیکٹری مجھے بہت اچھی لگی۔ یہاں پاکستانیوں کی تعداد محدود تھی۔تعصب نام کی کوئ چیز نہ تھی۔ یہاں کا کام گزشتہ کام کے مقابلے میں کافی آسان تھا۔ شام چھ یا سات بجے گھر آکر میں ہلکی پھلکی صفائ کرتا۔ روزانہ وہاں کا مقبول انگریزی اخبار Japan Times پڑھتا۔ اور اگر وقت ملتا تو کبھی کبھار پاکستانی اور انڈین گیت مالا دیکھتا۔ فلموں کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ میں ہمیشہ کتابیں پڑھنے کو فلم دیکھنے پر ترجیح دیتا۔
جاپان میں حلال/پاکستانی کھانوں کا حصول کافی مشکل تھا۔پورے جاپان میں ایسی چند دکانیں تھیں جہاں حلال گوشت اور دیگر پاکستانی کھانے ملتے تھے۔ کچھ پاکستانی حلال گوشت کے کاروبار سے منسلک تھے۔ وہ گھروں تک حلال کھانے پہنچاتے تھے۔ ان میں دالیں ، پاکستانی مصالحہ جات ، چاول ، سویاں اور اچار وغیرہ شامل تھے۔ فون پر انھیں یہ سامان لکھوا دیا جاتا تھا اور دو سے تین دن میں سامان آپ کے گھر تک پہنچا دیا جاتا۔
جب آپ گھر سے دور ھوں تو آپ دو طرح کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ آپ ماہانہ دو سے تین لاکھ روپۓ کما رہے ھوتے ہیں۔ آپ ایک مکمل آزاد زندگی گزار رہے ھوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو شراب پیئں، سگریٹ نوشی کریں ّ، کلب جائیں اور جوا کھیلیں۔ ایسے کئ پاکستانی لڑکے دیکھے جو انہی مقاصد کے لیے جاپان آۓ تھے۔ اتنی محنت کی کمائ ان حرام کاموں میں خرچ ھوتا دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوتا۔
دوسرے وہ لڑکے تھے جو اپنے کام سے کام رکھتے۔ ایک پیسہ بھی ضایع نہ کرتے۔ پیسے بچا بچا کر پاکستان بھیجتے۔ ایسے لڑکے اپنا فارغ وقت مثبت سرگرمیوں میں صرف کرتے۔
دیار غیر میں وطن اور دین سے محبت جاگ جاتی ھے۔ہم لوگ فیکٹری میں بھی نماز کا اہتمام کرتے۔ جاپانی ہمیں بڑے غور سے دیکھتے اور ہم سے ہمارے عقائد سے متعلق سوالات کرتے۔ یہاں زیادہ تر لوگ Buddhist تھے۔ کئ لوگ سورج اور چاند کی پوجا کرتے تھے۔ یہ ہم سے پوچھتے تھے کہ تمہارا خدا نظر کیوں نہیں آتا ؟
پاکستان کے بارے میں بھی ان کی معلومات بہت محدود تھیں۔ایک دن ایک جاپانی نے مجھے اپنے اس سوال سے حیران کر دیا کہ کیا پاکستان میں لوگ جوتے پہنتے ہیں؟
وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کے تمام لوگ بھوکے ننگے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو نہیں۔اور وہ اب بھی غاروں میں رہتے ہیں۔
اتنا ترقی یافتہ ملک ھونے کے باوجود یہاں صرف 6 ٹی وی چینل کام کرتے تھے۔غیر ملکی چینلز میں صرف CNN اور BBC کو کام کرنے کی اجازت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس ملک کی ثقافت تا حال محفوظ ھے۔
یہاں کے لوگ انتہائ محنتی ، جفا کش، ایماندار اور محب وطن ہیں۔ دراصل کام ان کا مذہب ھے۔ چھٹی والے دن بھی یہ لوگ بلاوجہ فیکٹری کا چکر لگا لیتے ہیں۔ چھ دن لگ کے کام کرتے ہیں۔ ہفتہ کی شام کو Bar، Pub یا club کا رخ کرتے ہیں۔ Beer، Juices اور کافی پینے کا بہت شوق ھے۔ پانی بہت کم پیتے ہیں۔
جاپانی عام طور پر ہر سال گاڑی بدلتے ہیں۔ سال میں تیس سے چالیس ہزار کلو میٹر گاڑی چلا کر نئ گاڑی لے لیتے ہیں۔ پرانی گاڑیاں پاکستان سمیت دنیا کے کئ ممالک کو برآمد کر دی جاتی ہیں۔
ھمارے ملک میں آنے والی ایسی گاڑہوں میں passo، mira ، aqua اور vitz قابل زکر ہیں۔
اس ملک کی ایک اور دلچسپ بات یہ ھے کہ یہاں گاڑیاں تو سستی ہیں لیکن پارکنگ سرٹیفکیٹ بہت مشکل سے ملتا ھے۔ یہاں جگہ کی کمی ھے اس لیے پارکنگ بہت مہنگی ھے۔ گاڑیوں کے سستے ھونے کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ ہر ماہ کی تنخواہ میں ایک مناسب سی گاڑی خریدی جا سکتی ھے۔
اگلے ھفتے میں فیکٹری میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ آفس سے جاپانی لڑکی بھاگتی ھوئ آئ اور مجھے بتایا کہ تمھاری کال آئ ھے اور کوئ انگریز خاتون تم سے بات کرنا چاہتی ھے۔ میں نے آفس جا کر فون پر بات کی تو پتہ چلا کہ یہ Beth تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ کئ غیر ملکی کل چرچ کے بعد پارٹی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ اگر میں چاھوں تو وہ مجھے چرچ کے بعد pick کر لیں گے۔ میں نے حامی بھر لی۔ اگلی صبح یعنی اتوار کو میں تمام کاموں سے فارغ ھو کر ان کا انتظار کرنے لگا۔
تقریباً 30 12 بجے گھر کی گھنٹی بجی تو Beth میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے جو گاڑی چلا کر آۓ تھے۔ میں نے اپنا بیگ لیا اور جوتے پہن کر ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔
ان صاحب نے مجھے اپنا تعارف کرواتے ھوۓ کہا کہ میرا نام Delmings ھے اور میرا تعلق سوئیڈن سے ھے۔
(جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)