ملک کے نامور خطاط استاد گوہر قلم چند منٹ پہلے شیخ زاید ہسپتال لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی رحلت معدہ اور جگر کی کئی پیچیدگیوں کے باعث ہوئی۔ گزشتہ دو دن سے ان کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ دل بہت رنجیدہ ہے۔ ذاتی نقصان پر دل کو رنجیدہ ہونا بھی چاہیے۔
گوہر صاحب میرے والد مرحوم کے ماموں زاد بھائی اور ان کے بہت پیارے شاگرد تھے۔ ان کا نام بھی میرے والد نے اپنے خطاط اور شاعر استاد صوفی خورشید عالم خورشید رقم مخمور سدیدی کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا خوش نویسی کا نام گوہر قلم بھی میرے والد ہی کا تجویز کردہ تھا۔
گوہر صاحب دھریمہ، معظم آباد، بھیرہ اور لاہور میں پڑھتے رہے۔ انھیں حافظ محمد یوسف سدیدی جیسے عظیم فن کار سے تلمذ کا شرف حاصل تھا۔ ان کی زندگی مسلسل جد و جہد سے عبارت تھی۔
خطاطی میں انھوں نے بہت جلد اپنی پہچان بنائی اور اس جاں بہ لب فن کو نئی زندگی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذرائع ابلاغ سے اس کی اہمیت منوائی۔ کئی برسوں سے وہ اپنی بیٹھک کے علاوہ این سی اے، لاہور میں بھی خطاطی پڑھاتے اور سکھاتے رہے۔ ان سے فیض یاب ہونے والے سنجیدہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہو گی۔
خورشید گوہر قلم خطاطی کی تاریخ، اس کے اسرار و رموز اور مختلف ممالک کے قدیم و جدید خوش نویسوں کی خدمات و کمالات سے بہ خوبی آگاہ تھے اور اپنی درّاک تحسینی، تنقیدی اور تجزیاتی صلاحیت سے ان موضوعات پر تحریری و تقریری رائے زنی کیا کرتے تھے۔ انھوں نے خطاطی کے موضوع پر کئی قابلِ قدر کتابیں لکھیں جن میں سے اکثر سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور سے شائع ہوئیں۔ مذہب، تصوف اور تاریخ سے بھی انھیں گہرا لگاؤ تھا اور اس ضمن میں بھی ان کی چند اچھی تصانیف موجود ہیں۔
میں نے بی اے میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی شخصیت اور فن پر ایک کتابچہ بھی لکھا اور شائع کیا تھا۔
ان کی شخصیت اتنی دل پذیر اور پر کشش تھی کہ شاید بیسیوں صفحات میں کہیں اس کا کسی قدر احاطہ ہو سکے۔ ان کی ہزاروں دل چسپ باتیں، لطیفے، مسکراہٹیں، ادائیں اور مصنوعی ڈانٹ ڈپٹ کے واقعات یاد آ رہے ہیں۔
گوہر صاحب بنیادی طور پر سادہ، بھولے بھالے اور فقیر منش آدمی تھے۔ ان کا دل اور ہاتھ بہت کھلا تھا۔ دل میں تا دیر غصہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ جلد معاف کر دینے والوں میں سے تھے۔ اختلاف بھی کرتے مگر شائستگی سے۔ برہم بھی ہوتے مگر قرینے سے۔ اپنے فن کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے اور اس کی پذیرائی پر تہِ دل سے سرشار ہو جایا کرتے تھے۔ انھیں اس کا حق بھی پہنچتا تھا.