“اچھا” کا لفظ بھی انگلش ہوگیا، اسے کیمبرج انگلش ڈکشنری میں شامل کر لیا گیا ہے.اس کی اصل اردو یا ہندی بتانے کی بجائے اسے انڈین انگلش کا لفظ کہا گیا ہے.
ابّا، اماں، گلاب جامن ، مرچ مسالہ، قیمہ، چمچہ، چڈی وغیرہ پہلے ہی آکسفورڈ اور دوسری انگلش ڈکشنریز میں شامل ہیں.
الفاظ کا یہ اضافہ ایک مسلسل عمل ہے. مثلاً آکسفورڈ ڈکشنری کے مرتبین سال میں چار بار نئے الفاظ شامل کرنے کیلئے میٹنگ کرتے ہیں۔
برطانیہ میں اس کے تمام سابق غلام ممالک کے لوگ آباد ہیں. کاروبار بھی کررہے ہیں. اپنی زبانیں بھی بولتے ہیں، جن کے الفاظ غیر محسوس طریقے سے سب کی vocabulary میں شامل ہورہے ہیں. ایسے الفاظ کو انگریزی بھی گود لے لیتی ہے. آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے صرف ایک ایڈیشن میں ایسے 900 نئے الفاظ شامل کئے گئے۔ جن میں اردو، ہندی ، تیلگو، تمل اور گجراتی کے 70 الفاظ بھی تھے.
اِدھر ہماری طرف یہ حال ہے کہ کوئی اردو تحریر یا گفتگو میں سندھی، پنجابی، سرائیکی یا کسی اور پاکستانی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرلے تو اہلِ وطن اسے جاہل، اجڈ قرار دے دیتے ہیں. ایک دوست کا تو اصرار تھا کہ مہمل بھی اردو کے مخصوص استعمال کئے جائیں یعنی کتاب شتاب، نقل شقل غلط ہیں، کتاب وتاب، نقل وقل بولنا چاہیے.
حالانکہ اردو تو بنی ہی میل جول کے قدرتی عمل سے ہے. اس طرح شدھ رکھنے کی ایسی کوشش کسی بھی زبان کو سنسکرت بناسکتی ہے.