بریکنگ، خبروں‘ بیانات اور نیوز کانفرنسز کے جنگل میں مشینی انداز سے بھاگتے دورٹے برقی ذرائع ابلاغ کے کارکن اور نیوز اینکرز‘ جنہیں فکر ستاتی ہے کہ برف کی طرح ان کے پاس رکھی خبر کہیں پگھل نہ جائے اور کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے یخ بھاپ اگلتی اس خبر کو ناظرین تک پہنچائیں۔ یہ جستجو اکثر و بیشتر انہیں کئی امتحان اور آزمائش سے بھی دوچار کردیتی ہے۔ ’ سب سے پہلے‘ اور ’تازہ ترین‘ کے خبط میں جیسے ایک ’نقطے‘ سے محرم سے مجرم ہونے کی طرح۔ افسوس تو اُس وقت ہوتا ہے جب ان غلطیوں کو سوشل میڈیا پر ہر کوئی چٹ پٹے تبصروں کے ساتھ شیئر کرتا ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کام کے دباؤ میں کبھی کبھار غلطیاں ہو بھی جاتی ہیں۔
حادثہ، سانحہ اور قتل و غارت گری اِ ن کے لیے سنسنی خیز ی سے بھری دیگ ہوتی ہے‘ جس کا ڈھکن جب کھلتا ہے تو اسکرین پر لال، گلابی، نیلے‘ پیلے رنگوں اور ڈبوں کی مہک اٹھنے شروع ہوجاتی ہے۔ جو جتنی دیر رہے گی‘ سمجھا جاتا ہے اس کا اثر تادیر رہے گا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ دنیاجہاں، گلی محلوں کی خبریں دینے والے یہ کارکن، اپنے غم، اپنی خوشی، اپنی بیماری‘ اپنی تکلیفیں اور دکھوں سے بے نیاز اُس مزدور کی طرح دفاتر میں آتے ہیں‘ جن کے سامنے روزانہ خبروں کی اینٹیں اٹھانے کا کام پڑا ہوتا ہے۔ یہ ذمے داری ایک شفٹ انجام دیتی ہے‘ تو اگلی اُسے دوسرے مرحلے میں داخل کرنے کی تیاری پکڑ لیتی ہے‘ جو ان میں مزید نقش و نگاری کرکے خبروں کی لمبی دیوار کھڑی کرتی جاتی ہے۔جس کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ دراز ہونے لگتا ہے۔
کیا ستم ہے کہ اپنے دکھوں کو پردے دھکیل کر اسکرین پر نظر آنے والی اینکر‘ چہرے پر مسکان سجائے دنیا بھر کی خوشیوں اور مسرتوں کے نذرانے پیش کررہی ہوتی ہے تو کہیں کوئی نیوز اینکر خوشیوؤں سے لبریز ہونے کے باوجود کسی سانحہ یا حادثے کو غمگین تاثرات کے ساتھ کسی منجھے ہوئے اداکار کی طرح ناظرین تک پہنچانے کا اہم کام کرنے میں مصروف۔
کسی حادثے یا جاں بحق ہونے کا ٹکر ہم سب کے لیے معمولی نوعیت کا ہوتا ہے‘
تجزیہ کار، وزرا اور ماہرین کے لمبے لمبے ’بیپرز‘ لینا تو ذمے داری میں شامل ہے لیکن گھر سے آئے ہوئے ’بیپر‘ پر ہوں ہاں اچھا ‘ میں کرتا ہوں بات گھر آکر اس سے زیادہ الفاظ ہی نہیں نکل پاتے۔ خدشہ یہی ہوتا ہے کہ ذرا سی لاپرواہی سے کوئی اہم نکتہ نہ رہ جائے۔ عالم یہ ہے کہ کسی عزیز یا دوست کی وفات ہوجائے تو دعا یہی ہوتی ہے کہ اپنی شفٹ کے بعد تدفین ہو تاکہ شرکت کرسکیں اور جو کر بھی لیتے ہیں تو پسماندگان کو پرسہ اور مرحوم کو یاد کرنے سے زیادہ بس سوچ یہی رہتی ہے کہ کب پھر سے دفتر پہنچیں گے تاکہ دنیا کے جھمیلوں میں خود کو گمشدہ کرلیں۔
گئے وقتوں میں میڈیا میں کام کرنے والوں کو اِن کی پرکشش تن خواہ اور مراعات کی بنا پر قابل رشک سمجھا جاتا‘ لیکن فی زمانہ اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ قبر کا حال صرف مردہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ بے چارے گھبراتے ضرور ہیں بالخصوص حالیہ دو ڈھائی برس سے جس طرح یہ انڈسٹری بری طرح بحران کا شکار ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے گھبرانا تو بنتا ہی ہے۔ اِدھر مالکان تک بے چارے حیران اور پریشان ہیں‘ کیونکہ اشتہارات کا کیک ایک ہے جس کے حصے دار روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔
ذرا غور کریں کہ بیماری‘ آندھی طوفان یا ٹریفک جام‘ احتجاج غرض راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے دفتر میں حاضری کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ کورونا وبا کے عین عروج پر بھی یہ کارواں رکا نہیں تھما نہیں۔ کہا گیا کہ سماجی فاصلے اور رابطے کا خیال رکھیں ‘ اس کا خیال تو میڈیا ورکرز عام دنوں میں بھی خوب رکھتے ہیں کیونکہ خبروں اور بریکنگ کی مصروفیات میں اتنا کسی کے پاس وقت ہی نہیں کہ بیٹھکیں لگائے جو قریب ہیں ان سے حال احوال دریافت کیا جاتا رہتا ہے لیکن جو آنکھ سے اوجھل ہوا تواس کی خیریت دریافت کرنے کا واحدذریعہ سوشل میڈیا ہی رہ جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ خبروں کے تعاقب میں بھاگتے دوڑتے میڈیا ورکرز خواب میں بھی خود کو نیوز روم میں ہی پاتے ہیں۔ اعصاب پر نیوز بس نیوز ہی سوار رہتی ہے ۔ آنکھیں بند ہو لیکن ذہن مسلسل خبروں کے تعاقب میں کسی سرکش گھوڑے کی طرح بھاگ رہا ہوتا ہے ۔ عجیب نفسیاتی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔ ۔ طبیعت میں چڑچڑا پن نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ زندگی سے بے زاری کی جھلک بھی نظر آتی ہے اور ذہن پر غیر معمولی دباؤ رہنا تو عام ہوگیا ہے۔ کام کرنے کا جوش اور لگن دھیرے دھیرے جھاگ کی طرح بیٹھتا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا انہیں ماہر نفسیات کی اشد ضرورت ہے۔ جو ان کی بے چینی‘ بے سکونی اور اضطرابی کیفیت کے پیش نظر ان کے گرتے ہوئے مورال کو بلند کرے ۔ ملٹی نیشنل اداروں کے برعکس میڈیا ہاؤسز میں کارکنوں اور نیوز اینکرز کی کونسلنگ کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود ہی نہیں۔ جن کے ذریعے مختلف سیشن میں ان افراد کی خود اعتمادی کے لیے کارآمد گُر سے آشنائی ہو ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صحافتی اور سماجی فلاحی تنظیمیں عالی شان بڑے بڑے ‘ مباحثے ‘ ٹریننگ اور سمینارز کے ساتھ ساتھ میڈیا ورکرز کی کونسلنگ کا بھی بندوبست کریں۔