اکیسویں صدی کے انسانوں کو یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ اسلام کے دین متین کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار خواتین نے ہی ادا کیا ہے اگرچہ اسے اب کھل کر تحسین کے ساتھ بیان نہیں کیا جاتا ہے۔ مشرق میں آج عورت کی ذات مبارکہ کو قبائلی روایات اور دیہی بندشوں میں لپیٹ کر پراگندہ کردیا گیا ہے جبکہ مغرب میں واقع عورت کی ضروریات روحانی و جسمانی تسکین مکمل نہیں ہو پاتی ہیں۔
مادی ترقی و خوشحالی اور امن و آشتی کے باوجود جبکہ مشرقی تہذیب و معاشرت میں ظہور اسلام کے ماحول کی طرح عورت کی ذات مبارکہ کو حقانیت اور حفاظت کے بنیادی تصورات اور زندہ سوالات درپیش ہیں جسے ازسرنو منظم اور مربوط انداز میں کھل کر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خواتین کے متعلق نفسیاتی اور سماجی ترقی و خوشحالی کے تمام مباحث عملاً وقت کے ضیاع میں ہی شمار ہوتے ہیں۔
اسلام کی کہانی حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے اس منفرد کردار سے آغاز پاتی ہے۔ایک ایسا خطہ جہاں زندگی کا سانس لینا محال ہوتا ہےوہاں پر تہذیب و معاشرت اور تمدن و معاشرت کا وہ پودا اگتا ہے جس کے قدموں تلے سے روحانیت اور کرامت عالیہ کی زم زم کا پانی و کردار ہمیشہ کے لیے جاری کر دیا جاتا ہے۔حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی شخصیت پر الہامی کتابوں میں جو روشنی ڈالتا ہے خاص کر آخری الہامی کتاب قرآن کریم کے الفاظ میں وہ بطور خاتون غیر معمولی اور غیر متزلزل ایمان و یقین ،محبت ، مضبوطی و پختگی اور بڑے تناظر کو دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔بطور انسان اور بطور ماں ان کے امتحانات بہت کڑے ہوتے ہیں لیکن اُن کا صبر کرنا ،ہمت نہ ہارنا، تلاش کرتے رہنا، دوڑنا،دعا کرتے رہنا اور پختہ یقین کے ساتھ جدوجہد کرتے رہنا یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام رب کے انعام کے ساتھ تشریف لاتے ہیں یہاں تک کہ زمزم جاری ہو جاتا ہے۔
اس صبر و رضا کا انعام اس بے آب وگیا صحرا میں جہاں ایک تنکا نہیں پیدا ہوتا تھا اب تمام دنیا کے لئے نئے عمرانی ارتقاء اور مادی ترقی و ہدایت کا سامان و دانش مندی یہیں سے ملتی ہیں۔تا ابد کسی انسان کا زندہ رہنا تو مالک ارض و سماء کے نظام کائنات میں ممکن نہیں لیکن ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ کردار، خلوص نیت،استقلال،ثابت قدمی، صبر و رضا پر اللہ ایسا اجر عظیم عطا کرتا ہے کہ نسلوں کی پیاس بجھا دی جاتی ہیں ،امتیں سیراب ہوتی ہیں۔تہذیب و ترقی رواج پکڑ تی ہیں اور انسانی ذہانت و قابلیت کے حامل معاشرے ڈویلپمنٹ کے منازل طے کرتے ہیں۔
دین اسلام کی کہانی کا ایک کردار اور ہے جو ایک بار پھر اسلام کے لیے محبت کی لازوال مثال بن جاتا ہے۔یہاں ایک بار پھر اسلام کا نیا آغاز ہوتا ہے ایک ایسا آغاز جس کے بعد اور کوئی پیغام نہیں آنا جس کے بعد اور کسی کردار کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ کردار سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا ہیں ام المومنین سیدہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا اسلام کی خاتون اول کی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔یہ بات خواتین کے لیے خصوصی فخر کی ہے کہ اسلام کو تقویت پہنچانے والی پہلی ہستی ایک خاتون ہیں۔1400 سو سال پہلے کی بزنس ویمن جو تن و تنہا عرب کے جہالت سے بھرپور معاشرے میں اپنا کاروبار چلا رہی ہیں ان کے کام کے معیار کا گواہ پورا عرب ہوتا ہے۔کردار ایسا کہ طاہرہ لقب پاتی ہیں،وقار ایسا کے بہت سے لوگ نکاح کے خواہش مند ہیں،نرم دلی میں بے مثال ہیں،قربانیوں کی ایک مکمل داستان ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک ایسامبارک حصہ ہیں کہ جب وصال پاتی ہیں تو وہ سال غم کا سال قرار پاتا ہے۔وفا کا استعارہ ہمیشہ کی روشنی بکھیرتا رہے گا۔
اگرچہ ان دو شخصیات کے درمیان میں اور بہت سی خواتین کا کردار اہم ہے لیکن یہ خواتین ایسی ہیں جن کی زندگی کے بڑے اہم پہلو ہمارے سامنے مستند حوالوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم آج کی دنیا میں جن خواتین کو کامیابی کی سیڑھیاں طے کرتا دیکھتے ہیں ان میں سیدہ ہاجرہ علیہ السلام اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے کردار کی کوئی نہ کوئی شکل ضرور موجود ہوتی ہیں۔
آج کا معاشرہ مادی ترقی و خوشحالی اور تحریک نسواں کے خوبصورت و معنی خیز نعروں کے باوجود ان میں سے بہت سی قدروں سے کوسوں دور جاتا نظر آتا ہیں۔ بنیادی انسانی احترام، آزادی کے دوررس اور وسیع پیمانوں و تصورات، دین متین سے دوری ،اپنے ماضی کے ان بے مثال کرداروں سے دوری ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہیں۔جس قوم کو کمزور کرنا مقصود ہوتا ہے تو اسے اپنی ثقافت اور اقدار سے دور کر دیں غیروں کی تقلید پر لگا دیں اس قوم کے یقین محکم کو شکوک و شبہات کے آسیب کا اسیر کر دیں تو نتائج تباہ کن ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں تحمل و بردباری اور دانش و حکمت کی احیاء کی ضرورت ہے، آج کا بچہ بدر و حنین کے قصے نہیں پڑھتا بلکہ انتہائی فضول اور بے سروپا ویڈیو گیمز میں مشغول ہے۔آج کی ماں کی گوداس تربیت کا کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھیں اور حالات کا رخ بدلنے کی بات کریں جو اقبال کی سوچ سے نکھر کر نئے افق پر پہنچیں۔
آج ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ان اہم ہستیوں کے کردار و عمل سے درس حاصل کرنا ہو گا جن کو نبی آخر الزماں نے ہمارے لیے سند عطا کر دی ہے۔مسائل کا صرف رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے قدم اُٹھانا پڑتا ہے، نگاہ بلند رکھنی ہوتی ہے۔دو چیزوں نے معاشرتی ترقی و دین متین کو بہت نقصان پہنچایا ہیں،،
پہلی چیز دین میں تعصب اور دوسری دین میں تشدد۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی چیز سے دین کی دعوت ختم ہو گئی اور دوسری چیز سے نوجوان دین سے باغی ہو رہے ہیں۔
اقبال کے فارسی کلام کا کیا کہنا کہ مطالب کی تشریح و تعبیر نو اقبال پر ہی ختم ہو جاتی ہے،
ریگ عراق منتظر،کشت حجاز تشنہ کام
خون حسین بازدہ کوفہ و شام خویش راہ،،
خواتین کی عظمت و رفعت اور ترقی و خوشحالی کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کی ضرورت مسلمہ ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور انسانی ذہانت و قابلیت اور استعداد و توان نمو نہیں پاتی ہیں معاشروں میں جب تک ماں کی گود اور تعلیم و تربیت کا لازوال کردار تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں تلاش نہ کریں 21 ویں صدی کے معروف مسائل زندگی میں سماجی انصاف و ترقی کے دوررس نتائج مرتب کرنے کے لئے تب تک اعلیٰ تعلیم و دانش مندی اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کے قیام کے لئے کوشیشیں بے سود ثابت ہوتی رہی گی مسلمان معاشروں کی خمیر تربیت و پرورش اور تعلیم و تدریس الہامی راہنمائی و روشنی اور جرات مندانہ انداز میں ارتقاء و فکری نشوونما میں پوشیدہ ہیں خواتین اور بچیاں اس خمیر کی بنیادی اکائی اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تکمیل کے لئے ابتدائی اور تعمیری اینٹوں کا کردار ادا کرتی ہیں ہمارے معاشروں کی خمیر میں فرائیڈ کا نظریہ جنس اور صنف نازک کا استحصالی نظام سیاست و معیشت کا روا رکھا جانا ممکن ہی نہیں ہے بلکہ زندگی و سماجیات اور سوچ وفکر کی قوتیں موت کے گھاٹ اترتی ہیں اس لئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات اور زندہ سوالات و تہذیبی ارتقاء کا ادراک و احساس کرتے ہوئے انھیں ماڈل شخصیات بطور خاص انبیاء کرام علیہم اجمعین ، ازواج مطہرات و پاکیزہ امہات المومنین اور تاریخ کے اوراق میں محفوظ پاکیزہ و فکری دانش مندی سے لبریز خواتین عالم کے کردار کی روشنی و توانائی میں لمحہ موجود کے انسانی احترام، آزادی نسواں اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تکمیل کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔