آج بروز اتوار 26 ستمبر 2021 کو جرمن پارلمینٹ کے انتخاب ہورہے ہیں۔ جرمنی کی تاریخ میں یہ20 واں انتخاب ہے جس میں کل 53 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔
جرمنی کا 26 ستمبر 2021 کا انتخاب عالمی سیاست کے منظر نامے پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔
جرمنی کے اس انتخاب میں کل 299اضلاع میں 88 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔ جن میں ساٹھ ہزار ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔
اس سال 2,8 نئے امیدوار ہیں جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے جبکہ 21 فیصد ستر سال سے عمر کے زائد شہری ووٹ ڈالنے میں حصہ لے رہے ہیں۔
بیلٹ پیپر کے روایتی طریقے سے انتخاب ہورہے ہیں کیونکہ 2009 میں کیے گئے ایک فیصلے کے مطابق الیکٹرونک پولنگ غیر آئینی ہے۔
کرونا کی وبا کے تحت اس سال 45فی صد لوگ ڈاک سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ پولنگ اسٹیشن میں آکر ووٹ ڈالنے والوں کو بھی ماسک کا استعمال لازمی ہے۔ پچھلے انتخابات میں صرف بیس فی صد لوگوں نے ڈاک کے زریعے ووٹ ڈالے تھے۔
اس انتخاب کی سب سے اہم بات یہ ہےکہ جرمنی کی سب سے بڑی پارٹی سی ڈی یو(کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی) کی دنیا بھر میں مشہور و معروف جرمنی کی چانسلر خاتون انجیلا مرکل اپنے طویل ترین دورانیے کے بعد سیاست کو خیر باد کہہ رہی ہیں۔ انجیلا میر کل کے دور حکومت کے پیش نظر یہ بات ان کی اپنی جماعت سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی تجسس کا باعث ہیں کہ انجیلا میرکل کے حامیوں کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین بھی یہ بات واضح طور پر ماننتے ہیں کہ اُن کی کارکردگی کا سیاسی منظر نامہ نہ صرف ملک کی داخلی سیاسیات بلکہ عالمی سطح پر خارجی سیاست کا بھی ایک اہم ترین دور رہا ہے۔ جہاں وہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے کئی ایسے معاملات کو حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں جس کے لیے یورپ کے دیگر ممالک اور دنیا بھر میں بسے مسلمان اپنی شناخت اور تحفظ کے حوالے سے متفکر تھے۔اس حوالے سے عوامی سطح پر یہ انتخاب ایک جواب طلب سوال پیش کر رہے ہیں کہ کیا چانسلر انجیلا میرکل کے بعد ان کے جیسے دور حکومت کی مثبت حکمت عملی کو مشکل اوقات میں دوہرایا جاسکے گا؟
سی ڈی یو(کرسچن ڈیموکریٹک یونین) اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی ، اس نے اپنا پروفائل تبدیل کر دیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ انجیلا مرکل جیت اور کامیابی کی ایک انتخابی ایسوسی ایشن بن چکی تھیں۔ لیکن اب میرکل سیاست سے بالکل الگ ہورہی ہیں۔ ان کے دور میں جرمنی نے توانائی کی منتقلی، 2015 اور 2016 میں بڑے پیمانے پر سیاسی پناہ گزین کو جرمنی میں پناہ دینے، یورپی قرض کو یورپی یونین میں سرایت کرنے، جیسے بڑے فیصلے سے جرمنی کو بہت تبدیل کر چکی ہیں اور جرمنوں کو آنے والے طویل عرصے تک میرکل کی ان تبدیلیوں کے سہارے ہی رہنا پڑے گا۔ یوں ان کے جانے کے بعد کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی میں ایک خلا سا محسوس کیا جارہا ہے۔
انتخاب سے پہلے جرمنی کی مختلف پارٹیوں کے بارے میں جو عوامی ردعمل سامنے آرہے ہیں اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جرمنی کی سب سے بڑی پارٹی جو انجیلا میرکل کی ہی پارٹی ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ جرمنی کی تین بڑی پارٹی، سی ڈی یو) کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی(، ایس پی ڈی )سوشل ڈیموکریٹک پارٹی) اور گرین پارٹی کےچانسلرکے امیدواروں کی ٹی وی ٹاک شو کے بعد لوگوں نے سی ڈی یوکے امیدوارآرمین لارشیٹ کو ایک کمزور امیدوار قرار دیا ہے جب کہ ایس پی ڈی پارٹی جس نے 1980 میں٪42،5 ووٹ حاصل کیے تھے اور 2017 میں صرف ٪20،5 ووٹ لےپائی تھی ۔ ایس پی ڈی کے چانسلر کے امیدوار اولاف شولز کو مستقبل کا چانسلر دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف گرین پارٹی کی نوجوان چانسلر کی امیدوار محترمہ انالینا بیرباک جو کہ بہترین مقرر بھی ہیں جرمنی کی پہلی گرین پارٹی کی چانسلر بننے کے لیے کوشاں ہیں۔
لیکن موجودہ سروے کے مطابق ایس پی ڈی کو 2021 کے وفاقی انتخابات میں٪ 25.8 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں اور اس طرح 2017 کے وفاقی انتخابات کے مقابلے میں 5.3 فیصد زیادہ ۔ لیکن یا بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ پچھلے 20 سالوں میں ایس پی ڈی اپنے آدھے ووٹر کھو چکی ہے۔ اس لیے سروے کا یہ رزلٹ کتنا سچ ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دوسری طرف موجودہ سروے2 کے مطابق سی ڈی یو کو ٪ 21.8 فیصد ووث ملنے کے امکانات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پارٹی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ٪ 11.1 فیصد کم ووٹ حاصل کرسکے گی۔ اس طرح2013 کے نتائج کے مقابلے میں سی ڈی یو کو ٪19.7 فیصد ووٹروں کو کھونا ہوگا۔ جبکہ گرین تیسری بڑی پارٹی کے بارے میں بھی سروے کی رپورٹ بہت مثبت ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آج ہونے والے یہ انتخابات اس بار کن پارٹیوں کے درمیان اتحاد ی حکومت بناتے ہے۔ پانچ فی صد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی حکومت میں شامل ہونے کی اہل ہے ۔ دائیں بازو کی جماعت اس زمن میں اپنے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہی ہے۔ جب کہ بائیں بازو کی جماعت اور ایف ڈی پی کی جماعت کو بھی جرمنی کے ایک محدود حلقے میں ممتاز حیثیت حاصل ہورہی ہے۔
جرمنی میں کسی ایک پارٹی کا رکن اپنی پارٹی چھوڑ کرعموماً بجائے کسی دوسری پارٹی میں جانے کے سیاست چھوڑنے کو بہتر سمجھتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی ذاتی شناخت کو اپنے سیاسی نظریات کا ترجمان بھی سمجھتا ہے۔
جرمنی میں انتخاب کے بارے میں جرمن قانون کے مطابق جرمن پارلمینٹ وفاقی جمہوریہ جرمنی کا نمائندہ ادارہ ہے اور متعلقہ قانون ساز ادارے کے طور پر یہ سب سے اہم ادارہ ہے۔ اس پارلیمنٹ کے ممبرز جرمن عوام کےمنتخب ممبرہوتے ہیں جوبراہ راست، آزاد، مساوی اور خفیہ ووٹ کے ذریعے چارسال کے لیے چننے جاتے ہیں۔
جرمنی کا بنیادی قانون انتخاب کے ٹائم فریم کی وضاحت کرتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ الیکشن کب منعقد کیے جانے چاہیے۔ یہ جرمنی کے بنیادی قانون کےآرٹیکل نمبر 39، پیراگراف 1 ہے۔ اس کے مطابق نیا الیکشن موجودہ انتخابی مدت کے شروع ہونے کے بعد سے 46 مہینے یا زیادہ سے زیادہ 48 ماہ کے اندر اندر ہو جانا چاہیے۔ اگر پارلمینٹ انتخابی مدت سےقبل ختم ہو جاتی ہے تو پارلمینٹ کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے 60 دن کے اندراندرنئے انتخاب کا ہونا لازمی ہے۔
19 ویں جرمن پارلمینٹ 24 اکتوبر 2017 کو شروع ہوئی تھی، اس طرح قانون کے مطابق انتخاب کی تاریخ بدھ 25 اگست 2021 سے اتوار 24 اکتوبر 2021 کے درمیان ہونی چاہیے۔ الیکشن کے لیے دن کا تعین بھی بہت ضروری امر ہے، یہ دن اتوار یا عام تعطیل کا دن ہونا ضروری ہے جو کہ فیڈرل الیکشن ایکٹ کے قانون سیکشن 16میں واضح کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ وفاقی انتخابات کی تاریخیں جہاں تک ممکن ہو اتواروالے دن ہوں، لیکن اسکولوں اور کالجوں کی عام تعطیلات سے متصادم نہ ہوں۔ جرمنی کے وفاقی صدر نے وفاقی حکومت کے مشورے کے بعد 26 ستمبر 2021، اتوار کے دن کو انتخابات کا دن مقرر کیا ہے۔
ان انتخابات میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کے جرمن شہریت رکھنے والے باشندوں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ حق وہ الیکشن کے دن یا پہلے سے ہی ڈاک کے زریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے لیے وہ انتخاب میں حصہ لینے والے سیاستدانوں اور انتخاب میں حصہ لینی والی جماعتوں کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس عمل کو”ووٹ دینے کا فعال حق” کہا جاتا ہے۔ اس کےعلاوہ بطورامیدوار بھی الیکشن میں حصہ لیا جا سکتا ہے، یعنی الیکشن کے لیےخود کو بطورامیدوارپیش کرنا ۔یہ عمل “ووٹ دینے کاغیرفعال حق ” کہلاتا ہے۔ لیکن یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ آپ پارلیمینٹ کےالیکشن میں امیدوار کیسے بن سکتے ہیں؟ یا آپ پارلیمینٹ کے رکن کی نشست کے لیے کیسے درخواست دے سکتے ہیں؟
عموماً مختلف سیاسی پارٹیاں ہی اپنے اپنے امیدواروں کو انتخاب کی دوڑ میں بھیجتی ہیں۔ ہر شہری ملک کی بڑی اورمتحرک جماعتوں کےملک گیرپھیلےممتاز سیاسی کو جانتا ہےاورعام طورپر ان سیاستدانوں کو بھی جو اس کی رہائش گاہ کے علاقے سےانتخاب میں حصہ لیتےہیں۔ پارلمینٹ مینڈیٹ جیتنے کا کلاسکیکل طریقہ یہ ہے کہ کسی پارٹی میں رکنیت حاصل کی جائے، چاہے وہ روایتی مقبول جماعت ہو، چاہے وہ کم معروف، چھوٹی یا نئی پارٹی ہو۔ پارٹیاں عام طورپرصرف اپنے دیرینہ اراکین کو ہی اپنے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینےکی اجازت دیتی ہیں۔
ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنزاورریاستی پارٹی کانفرنسوں میں پارٹیاں اپنے امیدواروں کو پارلمینٹ الیکشن سے کچھ مہینے پہلے ہی منتخب کرلیتی ہیں، جہنیں ووٹرز اپنے”پہلےووٹ” ڈالنے کےحق کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست منتخب کرتے ہیں۔ جیتنے والے امیدواروں کے نام ریاستی فہرستوں میں لیے لیے جاتے ہیں اور یہ سارے امیدوار ووٹر کے “دوسرے ووٹ” کی گنتی کا انتظار کرتے ہیں جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان امیدواروں کی پارٹی کی پوزیشن الیکشن میں کیسی رہی ہے۔ پارٹی کی کامیابی پرانحصار ہوتا ہے کہ وہ اپنے براہ راست جیتے ہوئے کتنے ممبرز کو پارلیمنٹ میں لے جا سکنے کے قابل ہوئی ہے۔ اس موقع پر پارٹی اپنے دیرینہ پارٹی ممبرز سے توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے عوام میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کے “پہلےووٹ” ڈالنے کےحق سے بہترین کامیابی حاصل کریں تاکہ ان کی پارٹی بھی عوام کے “دوسرےووٹ” سے واضح برتری حاصل کرسکے۔
مختلف پارٹیاں اور پارلیمانی گروپ دراصل عوام کی نظر میں سب سے زیادہ نظرآنے والی سیاسی قوت ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ میں منتخب ہونے اورجرمن پارلمینٹ کا رکن بننے کے لیے کسی پارٹی کی رکنیت ضروری نہیں ہے۔ اراکین اسمبلی انتخابی مدت کے اندر استعفیٰ دے سکتے ہیں یا پارٹی کی رکنیت تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیکن جرمنی میں ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے کوملتا ہے۔ جرمنی میں کسی ایک پارٹی کا رکن اپنی پارٹی چھوڑ کر عموما سیاست ہی چھوڑنا پسند کرتا ہے بجائے کسی دوسری پارٹی میں جانے کے۔
26 ستمبر 2021 کو ہونے والے وفاقی انتخابات میں کل 53 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ جس کا فیصلہ 8 اور 9 جولائی 2021 کو برلن میں وفاقی انتخابی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا تھا۔ فیڈرل الیکٹورل کمیٹی نے باضابطہ ان نکاتوں کا جائزہ لیا ہے جنھیں ہر جماعتوں کو پارلیمینٹ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پورا کرنا ہوتا ہے۔ وفاقی ریٹرننگ آفیسر ڈاکٹر جارج تھیل کہتے ہیں کہ “میں خاص طور پر اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ وبائی مرض کے دوران مشکل حالات کے باوجود بہت سی پارٹیوں نے پہلے مرحلے میں کامیابی سے حصہ لیا تاکہ وہ وفاقی انتخاب میں بھی حصہ لے سکیں۔ میں اس کے لیے سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔” 24 ستمبر 2017 کو ہونے والے پچھلے وفاقی انتخاب میں وفاقی انتخابی کمیٹی کے نتائج کے مطابق صرف 48 جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان میں سے بھی صرف 42 جماعت ہی اپنی نامزدگیوں کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے سکیں تھیں۔
چار گھنٹے بعد پولنگ اسٹیشنز میں ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہوکر گنتی شروع کی جائے گی اور مفروضات کے زریعے نتائج سامنے آئیں گے بعد ازاں حتمی نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن کرکے جیتے والی پارٹی کو مبارکباد دیں گے۔