چین اور انڈیا کے درمیان لداخ میں جو کچھ ہوا مودی سرکار کیلئے عالمی شرمندگی کا باعث بن گیا۔ ہمارا تو خیر بس نہیں چلتا کہ اسکا کریڈٹ بھی خود لے لیں گرچہ ہماری جھولی میں گرجدار بیانات کے سوا کچھ بھی نہیں، چین نے سفاک سرد مہری اور خاموشی سے نہ صرف انڈیا بلکہ امریکہ کو بھی منہ توڑ جواب دیا ہے۔ انڈیا کی عالمی حزیمت کے بعد امریکہ کو تو ثالثی کیلئے کودنا ہی تھا مگر چینی قیادت نے اس پیشکش کو ٹھکرا کر ورلڈ آرڈر کو بھی آئینہ دکھا دیا۔ یقین رکھیں جنگ نہیں ہو گی، بھارت ایسا کبھی کر نہیں سکتا، 1962 کے زخم اب تک ہرے ہیں جب چین نے لداخ میں بڑا علاقہ انڈیا سے جیت لیا تھا اور جلد ہی آپ ہندو چینی بھائی بھائی کے نعرے بھی سنیں گے جسطرح نہرو حکومت نے جنگ ہارنے کے بعد لگائے تھے۔
ہندوتوا کے نشے میں سرشار مودی سرکار نے سوچا بھی نہ تھا کہ لداخ اور سکم سرحد پر دراندازی اتنی بھاری پڑیگی، نشہ ٹوٹنے کے بعد ابتک سکتے کی کیفیت ہے، انڈین فلموں سے متاثر نیوز میڈیا جو چیخ و پکار کا ماہر تصور کیا جاتا ہے اس معاملے پر اچھلا تو بہت مگر مگر بہت ہی محتاط، سینا پتی نے اسے بڑا جھٹکا قرار دیا اور کیوں نہ ہو، جسطرح انڈین فوج کی سرحد پر لاتیں کھاتی اور منتیں کرتی وڈیو دنیا بھر میں وائرل ہوئی اسکے بعد بچا ہی کیا تھا۔ اب اس پورے واقعے میں چین کا رویہ ملاحظہ فرمایے جو کسی باوقار ورلڈ لیڈر سے کم نہیں، چینی وزیر اعظم کا ایک بیان، لداخ سرحد پر فوج کی بھرپور تعیناتی اور چینی میڈیا مکمل خاموش، کوئی اہمیت ہی نہ دی۔ انڈین فوج نہتے کشمیریوں پر چڑھائی کے بعد خود کو سورما گردان رہی تھی، پاکستان کے خلاف مسلسل جارحیت اور بھرپور جوابی رد عمل نہ ہونے پر شیر بن چکی تھی اب اس بین الاقوامی ندامت کے بعد تاویلات بھی نہ ڈھونڈ سکی۔ بھڑکیں مارنے والے اجیت ڈوول، بپن روات اور نئے آرمی چیف مکند نراون کی خاموشی چیخ چیخ کر ذلت کی داستان سنا رہی ہے۔
پڑوسی ممالک انڈیا اور چین کے درمیان سرحد 9488 کلو میٹر طویل ہے، چین، بھارت کی 90 ہزار کلو میٹر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے اسکی 38 ہزار کلو میٹر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ چین اور انڈیا میں کشیدگی کی طویل تاریخ ہے، خاص طور پر 1962 میں چین اور انڈیا کی جنگ، جب لداخ میں چین نے بھارت سے 11754 کلومیٹر کا علاقہ چھین لیا تھا۔ اس جنگ کے بعد اندرونی دبائو اور بیرونی تذلیل کے باعث نہرو حکومت کو کڑا وقت جھیلنا پڑا تھا اور یہ زخم آج بھی بھارت ماتا کیلئے ناسور ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ انڈیا کبھی بھی چین سے شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل پایا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی فوجی مہارت اور استعداد کو جانتے ہوئے یہ تجربہ نہیں دہرائے گا۔ آبادی کے اعتبار سے چین دنیا میں پہلے نمبر جبکہ بھارت دوسرے نمبر پر ہے، پڑوسی ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 90 ارب ڈالر سالانہ ہے، چین بھارت کو لگ بھگ 74 ارب ڈالرز کی برامدات کرتا ہے، کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک اتنے ہوشیار ہیں کہ تجارت و تعلقات کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے۔
انڈیا کی پڑوسی ممالک پر غلبے کی خواہش نئی نہیں، پاکستان کو تو خیر کبھی انڈین اسٹیبلشمنٹ نے قبول ہی نہیں کیا خطے میں پاکستان کو وجود بھارت ماتا کے سینے میں کانٹے کی طرح چھبتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں وطن عزیز کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندہی نے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے بیان داغا کہ آج دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں ڈبو دیا، موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ببانگ دہل اعلان کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں انڈیا نے کس طرح اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد اب تک انڈیا نے دوستی، امن و آشتی کے دعوے کے باوجود دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کیا۔ مگر مسئلہ صرف پاکستان کی حد تک نہیں انڈین اسٹیبلشمنٹ کے نظریں تمام پڑوسی ممالک پر ہیں، یہ بھی کڑی حقیقت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار، عدم تشدد کے پرچارک اور امن کے بھجن گانے والے انڈیا نے 1983 سے 2009 تک سری لنکا میں مسلح بغاوت کی آگ بھڑکانے کی بھرپور سرپرستی کی، تامل ایلام ٹائیگرز نے انڈین حکومت کی بھرپور سرپرستی میں پورے 26 سال سری لنکا کا امن تہہ و بالا کر رکھا، ایل ٹی ٹی ای کے باغی لیڈر ولاپلائی پربھارکرن نے 26 سالوں میں 50 ہزار سری لنکن فوجیوں اور ایک لاکھ شہریوں کی جان لی۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ انڈین آرمی نے باغی فوج کی تربیت، اسلحے کی فراہمی اور حکومت نے کس طرح خزانے کے منہ کھولے رکھے۔ بہرحال سری لنکا نے بمشکل تمام اس بیرونی بغاوت کو کچل کر امن و امان بحال کیا۔ نیپال اور بھوٹان آج بھی انڈین تسلط سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے چونکہ دونوں لینڈ لاک ملک ہیں اور بھارت کے محتاج ہیں سو ہر بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، مگر اب صورتحال اسقدر بھیانک ہو چکی ہے کہ نیپال نے مجبوریوں کے باوجود کالا پانی پر بھارتی دراندازی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے۔
ایک بڑی حقیقت ہم نظر انداز کر دیتے ہیں، ہندوستان یا بھارت کبھی ایک ملک تھا ہی نہیں، چھوٹے چھوٹے رجواڑے، سلطنتیں، مختلف مذاھب، فرقوں، رسم و رواج، ثقافتوں، زبانوں، رنگ و نسل پر مبنی معاشرے کو جوڑنے والی کسی چیز سے عاری، اسی باعث ایسٹ انڈیا کمپنی کامیاب ہوئی۔ مغل دور کے اختتام پر انگریز تخت دلی پر براجمان ہوئے تو ہندوستان یا بھارت کو ایک ملک انڈیا کا نام دیا گیا۔ تقسیم برصغیر کے وقت ہندوستانی قیادت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کثیرالثقافتی، لسانی، مذھبی بکھرے ٹکڑوں کو ایک مشترکہ نکتے پر کیسے جوڑا جائے سو گاندھی اور نہرو جیسے دانشمند سیاستدانوں نے سیکولر ازم پر انڈیا کی بنیاد رکھی۔ صرف یہی واحد نکتہ ہے جو منتشر اکائیوں کو وحدت میں جوڑتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عام انڈین مودی سرکار کی پالیسیوں سے زیادہ اتفاق نہیں کرتا چونکہ عام شہری سیکولر ہے اور واقعی امن و آشتی، گنگا جمنی تہذیب اور ثقافتی وضعداری کی نمائندگی کرتا ہے۔ مودی سرکار کا کارنامہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کے جنون میں انڈیا کی بنیاد یعنی سیکولر ازم کو کھود ڈالا ہے، مودی سرکار کی ہندووتوا پالیسی نے انڈیا کی عالمی شناخت سیکولر ازم کے منہ پر سیاہی مل دی ہے اور یہ عمل انڈیا کو توڑنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈین اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال رہی، خطے میں چوہدراہٹ کا جنون، سب کو ہندو بنانے کی آشا، خونریزی، مذھبی دہشتگردی، گھنائونی سازشیں، سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ آجتک پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور ارد گرد کو بھارت ماتا کا اٹوٹ حصہ جانتے اور سمجھتے ہیں، سو گاندہی اور نہرو کی روشن خیالی عوام میں تو موجود ہے مگر بھارت کے کرتا دھرتا آج بھی ان تمام ممالک پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔
جمہوری بھارت میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کی حقیقی نمائندگی مودی سرکار کر رہی ہے، انڈین مقتدر حلقوں کی وزیر اعلیٰ گجرات سے پردھان منتری تک نریندر مودی کی سرپرستی ستر سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ قائد اعظم کی جلد رحلت اور قائد ملت کے فوری قتل کے بعد اسٹیبلشمنٹ کیلئے میدان خالی تھا سو جلد حاوی ہو گئی۔ انڈیا کا معاملہ مختلف ہے، گاندہی کو تو جلد ہی قتل کر دیا گیا مگر نہرو کو بھرپور موقعہ ملا سو جمہوریت اور سیکولرازم کے جڑیں عوام کے بیچ بو دیں، اسی باعث انڈین اسٹیبلشمنٹ کو مودی جیسے انتہاپسند کو بطور قائد لانے میں 73 سال لگ گئے۔ بہرحال مودی تمام پڑوسیوں کے ناپسندیدہ ہیں مگر مجھے پسند ہیں چونکہ مجھے لگتا ہے نریندر مودی بھارت کے گورباچوف ثابت ہونگے اور انڈیا کو دوبارہ ہندوستان بنا کر چھوڑینگے۔