Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کالج اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کو پے اور سروس پروٹیکشن دی جائے. حکومت نے اس صدی کے آغاز میں کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا شروع کردیا. کنٹریکٹ اساتذہ کا پہلا بیچ 2002 میں آیا. پھر 2005 ،2009 اور 2012 میں اساتذہ کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کنٹریکٹ پر ہی بھرتی کیا گیا. حکومت کا رویہ یہ تھا کہ پہلے تو پروفیسر کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرتی. یہ بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی. اس بھرتی کے چند برسوں بعد اساتذہ کو مستقل کردیا جاتا. مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب اساتذہ کو اس دن سے ملازم تصور کیا جاتا جس دن انھیں مستقل یا ریگولر کیا جاتا. اس طرح ان کی تین چار سال اور بعض اوقات اس بھی زیادہ ملازمت کسی شمار میں ہی نہ آتی. اساتذہ کو اس کا نہ صرف یہ کہ شدید مالی نقصان تھا بلکہ کچھ لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر بھی مسائل پیش آنے ہیں . پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بنیفٹس کے لیے ضروری ہے کہ ملازم کی مدت ملازمت کم از کم پچیس برس ہو. اب اگر کوئی شخص 35 سال کی عمر میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوتا ہے اور چار سال بعد اسے مستقل کرکے تاریخ مستقلی سے اس کی ملازمت کا آغاز تصور کیا جائے تو ریٹائرمنٹ کی عمر کے وقت اس کی کل مدت ملازمت 21 سال بنے گی. اس طرح یہ ملازم بہت سی سہولیات سے محروم رہ جائے گا. پروفیسر کمیونٹی میں ایسے اساتذہ بہت بڑی تعداد میں ہیں. اس سلسلے میں “آوازہ” نے پروفیسر راہنما ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مستقلی کی تاریخ سے ملازمت کا شمار کرنا ہم اساتذہ برادری کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے. یہ ہماری زندگی کے تین چار سال حذف کرنے کے مترادف ہے. حکومت پنجاب پہلے ہم سے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کرتی رہی اور پھر اپریل دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب اسمبلی کے ذریعے قانون منظور کروا دیا کہ ملازمت کا آغاز مستقلی کی تاریخ سے تصور ہوگا. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تمام کے تمام پروفیسرز پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئے ہیں. یہ ادارہ مستقل بنیادوں پر بھرتی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس ادارے نے ہمیں تمام مراحل سے گزار کر ملازمت دی ہے. اس کا مطلب ہے کہ پہلے دن ہی سے ہمیں مستقل ملازم تصور کیا جائے. ڈاکٹر عطا نے یہ بھی بتایا کہ تحریک اساتذہ کےمطالبے پر 2015 میں کنٹریکٹ پالیسی ختم کرکے اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا . اس وقت بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ دوہزار بارہ اور دوہزار پندرہ والے اساتذہ کی تنخواہ برابر ہے. دوہزار بارہ والوں کو پندرہ میں مستقل کرکے تنخواہ کی ابتدائی سٹیج پر فکس کردیا گیا. اسی اثنا میں 2015 کا بیچ بھی آگیا. دونوں بیچز کی بنیادی تنخواہ ایک ہے جو ملازمت کے قوانین کے اصولوں کے خلاف ہے. ان دونوں بیچز کے درمیان تین سٹیجز کا فرق ضرور ہونا چاہیے جو اب نہیں ہے. دو اپریل دوہزار انیس کو پنجاب کے موجودہ وزیر تعلیم ہمایوں سرفراز نے میڈیا کے سامنے اساتذہ سے وعدہ کیا تھا کہ پروفیسرز کی پے پروٹیکشن اور سروس پروٹیکشن کا مسئلہ حل کروا دیں گے مگر بعد میں ہمایوں سرفراز اپنے وعدے سے مکر گئے. ہمارا خیال تھا کہ موجودہ وزیر تعلیم اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کروا کر اساتذہ کے دیرینہ مطالبے کو پورا کردیں گے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا. وزیر تعلیم کے اس عمل سے اساتذہ برادری میں بہت بے دلی پھیل گئی ہے. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تحریک اساتذہ کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام کالج اساتذہ کو تقرری کے پہلے دن سے ہی مستقل تصور کیا جائے اور ان کو تقرری کے پہلے دن ہی سے سارے بینفٹس دیے جائیں. اس کے علاوہ حکومت نے جو ناجائز کٹوتیاں کی ہیں انھیں فی الفور اساتذہ کو واپس کیا جائے
کالج اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کو پے اور سروس پروٹیکشن دی جائے. حکومت نے اس صدی کے آغاز میں کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا شروع کردیا. کنٹریکٹ اساتذہ کا پہلا بیچ 2002 میں آیا. پھر 2005 ،2009 اور 2012 میں اساتذہ کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کنٹریکٹ پر ہی بھرتی کیا گیا. حکومت کا رویہ یہ تھا کہ پہلے تو پروفیسر کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرتی. یہ بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی. اس بھرتی کے چند برسوں بعد اساتذہ کو مستقل کردیا جاتا. مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب اساتذہ کو اس دن سے ملازم تصور کیا جاتا جس دن انھیں مستقل یا ریگولر کیا جاتا. اس طرح ان کی تین چار سال اور بعض اوقات اس بھی زیادہ ملازمت کسی شمار میں ہی نہ آتی. اساتذہ کو اس کا نہ صرف یہ کہ شدید مالی نقصان تھا بلکہ کچھ لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر بھی مسائل پیش آنے ہیں . پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بنیفٹس کے لیے ضروری ہے کہ ملازم کی مدت ملازمت کم از کم پچیس برس ہو. اب اگر کوئی شخص 35 سال کی عمر میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوتا ہے اور چار سال بعد اسے مستقل کرکے تاریخ مستقلی سے اس کی ملازمت کا آغاز تصور کیا جائے تو ریٹائرمنٹ کی عمر کے وقت اس کی کل مدت ملازمت 21 سال بنے گی. اس طرح یہ ملازم بہت سی سہولیات سے محروم رہ جائے گا. پروفیسر کمیونٹی میں ایسے اساتذہ بہت بڑی تعداد میں ہیں. اس سلسلے میں “آوازہ” نے پروفیسر راہنما ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مستقلی کی تاریخ سے ملازمت کا شمار کرنا ہم اساتذہ برادری کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے. یہ ہماری زندگی کے تین چار سال حذف کرنے کے مترادف ہے. حکومت پنجاب پہلے ہم سے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کرتی رہی اور پھر اپریل دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب اسمبلی کے ذریعے قانون منظور کروا دیا کہ ملازمت کا آغاز مستقلی کی تاریخ سے تصور ہوگا. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تمام کے تمام پروفیسرز پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئے ہیں. یہ ادارہ مستقل بنیادوں پر بھرتی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس ادارے نے ہمیں تمام مراحل سے گزار کر ملازمت دی ہے. اس کا مطلب ہے کہ پہلے دن ہی سے ہمیں مستقل ملازم تصور کیا جائے. ڈاکٹر عطا نے یہ بھی بتایا کہ تحریک اساتذہ کےمطالبے پر 2015 میں کنٹریکٹ پالیسی ختم کرکے اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا . اس وقت بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ دوہزار بارہ اور دوہزار پندرہ والے اساتذہ کی تنخواہ برابر ہے. دوہزار بارہ والوں کو پندرہ میں مستقل کرکے تنخواہ کی ابتدائی سٹیج پر فکس کردیا گیا. اسی اثنا میں 2015 کا بیچ بھی آگیا. دونوں بیچز کی بنیادی تنخواہ ایک ہے جو ملازمت کے قوانین کے اصولوں کے خلاف ہے. ان دونوں بیچز کے درمیان تین سٹیجز کا فرق ضرور ہونا چاہیے جو اب نہیں ہے. دو اپریل دوہزار انیس کو پنجاب کے موجودہ وزیر تعلیم ہمایوں سرفراز نے میڈیا کے سامنے اساتذہ سے وعدہ کیا تھا کہ پروفیسرز کی پے پروٹیکشن اور سروس پروٹیکشن کا مسئلہ حل کروا دیں گے مگر بعد میں ہمایوں سرفراز اپنے وعدے سے مکر گئے. ہمارا خیال تھا کہ موجودہ وزیر تعلیم اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کروا کر اساتذہ کے دیرینہ مطالبے کو پورا کردیں گے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا. وزیر تعلیم کے اس عمل سے اساتذہ برادری میں بہت بے دلی پھیل گئی ہے. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تحریک اساتذہ کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام کالج اساتذہ کو تقرری کے پہلے دن سے ہی مستقل تصور کیا جائے اور ان کو تقرری کے پہلے دن ہی سے سارے بینفٹس دیے جائیں. اس کے علاوہ حکومت نے جو ناجائز کٹوتیاں کی ہیں انھیں فی الفور اساتذہ کو واپس کیا جائے
کالج اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کو پے اور سروس پروٹیکشن دی جائے. حکومت نے اس صدی کے آغاز میں کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا شروع کردیا. کنٹریکٹ اساتذہ کا پہلا بیچ 2002 میں آیا. پھر 2005 ،2009 اور 2012 میں اساتذہ کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کنٹریکٹ پر ہی بھرتی کیا گیا. حکومت کا رویہ یہ تھا کہ پہلے تو پروفیسر کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرتی. یہ بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی. اس بھرتی کے چند برسوں بعد اساتذہ کو مستقل کردیا جاتا. مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب اساتذہ کو اس دن سے ملازم تصور کیا جاتا جس دن انھیں مستقل یا ریگولر کیا جاتا. اس طرح ان کی تین چار سال اور بعض اوقات اس بھی زیادہ ملازمت کسی شمار میں ہی نہ آتی. اساتذہ کو اس کا نہ صرف یہ کہ شدید مالی نقصان تھا بلکہ کچھ لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر بھی مسائل پیش آنے ہیں . پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بنیفٹس کے لیے ضروری ہے کہ ملازم کی مدت ملازمت کم از کم پچیس برس ہو. اب اگر کوئی شخص 35 سال کی عمر میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوتا ہے اور چار سال بعد اسے مستقل کرکے تاریخ مستقلی سے اس کی ملازمت کا آغاز تصور کیا جائے تو ریٹائرمنٹ کی عمر کے وقت اس کی کل مدت ملازمت 21 سال بنے گی. اس طرح یہ ملازم بہت سی سہولیات سے محروم رہ جائے گا. پروفیسر کمیونٹی میں ایسے اساتذہ بہت بڑی تعداد میں ہیں. اس سلسلے میں “آوازہ” نے پروفیسر راہنما ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مستقلی کی تاریخ سے ملازمت کا شمار کرنا ہم اساتذہ برادری کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے. یہ ہماری زندگی کے تین چار سال حذف کرنے کے مترادف ہے. حکومت پنجاب پہلے ہم سے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کرتی رہی اور پھر اپریل دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب اسمبلی کے ذریعے قانون منظور کروا دیا کہ ملازمت کا آغاز مستقلی کی تاریخ سے تصور ہوگا. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تمام کے تمام پروفیسرز پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئے ہیں. یہ ادارہ مستقل بنیادوں پر بھرتی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس ادارے نے ہمیں تمام مراحل سے گزار کر ملازمت دی ہے. اس کا مطلب ہے کہ پہلے دن ہی سے ہمیں مستقل ملازم تصور کیا جائے. ڈاکٹر عطا نے یہ بھی بتایا کہ تحریک اساتذہ کےمطالبے پر 2015 میں کنٹریکٹ پالیسی ختم کرکے اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا . اس وقت بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ دوہزار بارہ اور دوہزار پندرہ والے اساتذہ کی تنخواہ برابر ہے. دوہزار بارہ والوں کو پندرہ میں مستقل کرکے تنخواہ کی ابتدائی سٹیج پر فکس کردیا گیا. اسی اثنا میں 2015 کا بیچ بھی آگیا. دونوں بیچز کی بنیادی تنخواہ ایک ہے جو ملازمت کے قوانین کے اصولوں کے خلاف ہے. ان دونوں بیچز کے درمیان تین سٹیجز کا فرق ضرور ہونا چاہیے جو اب نہیں ہے. دو اپریل دوہزار انیس کو پنجاب کے موجودہ وزیر تعلیم ہمایوں سرفراز نے میڈیا کے سامنے اساتذہ سے وعدہ کیا تھا کہ پروفیسرز کی پے پروٹیکشن اور سروس پروٹیکشن کا مسئلہ حل کروا دیں گے مگر بعد میں ہمایوں سرفراز اپنے وعدے سے مکر گئے. ہمارا خیال تھا کہ موجودہ وزیر تعلیم اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کروا کر اساتذہ کے دیرینہ مطالبے کو پورا کردیں گے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا. وزیر تعلیم کے اس عمل سے اساتذہ برادری میں بہت بے دلی پھیل گئی ہے. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تحریک اساتذہ کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام کالج اساتذہ کو تقرری کے پہلے دن سے ہی مستقل تصور کیا جائے اور ان کو تقرری کے پہلے دن ہی سے سارے بینفٹس دیے جائیں. اس کے علاوہ حکومت نے جو ناجائز کٹوتیاں کی ہیں انھیں فی الفور اساتذہ کو واپس کیا جائے
کالج اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کو پے اور سروس پروٹیکشن دی جائے. حکومت نے اس صدی کے آغاز میں کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا شروع کردیا. کنٹریکٹ اساتذہ کا پہلا بیچ 2002 میں آیا. پھر 2005 ،2009 اور 2012 میں اساتذہ کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کنٹریکٹ پر ہی بھرتی کیا گیا. حکومت کا رویہ یہ تھا کہ پہلے تو پروفیسر کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرتی. یہ بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی. اس بھرتی کے چند برسوں بعد اساتذہ کو مستقل کردیا جاتا. مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب اساتذہ کو اس دن سے ملازم تصور کیا جاتا جس دن انھیں مستقل یا ریگولر کیا جاتا. اس طرح ان کی تین چار سال اور بعض اوقات اس بھی زیادہ ملازمت کسی شمار میں ہی نہ آتی. اساتذہ کو اس کا نہ صرف یہ کہ شدید مالی نقصان تھا بلکہ کچھ لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر بھی مسائل پیش آنے ہیں . پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بنیفٹس کے لیے ضروری ہے کہ ملازم کی مدت ملازمت کم از کم پچیس برس ہو. اب اگر کوئی شخص 35 سال کی عمر میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہوتا ہے اور چار سال بعد اسے مستقل کرکے تاریخ مستقلی سے اس کی ملازمت کا آغاز تصور کیا جائے تو ریٹائرمنٹ کی عمر کے وقت اس کی کل مدت ملازمت 21 سال بنے گی. اس طرح یہ ملازم بہت سی سہولیات سے محروم رہ جائے گا. پروفیسر کمیونٹی میں ایسے اساتذہ بہت بڑی تعداد میں ہیں. اس سلسلے میں “آوازہ” نے پروفیسر راہنما ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مستقلی کی تاریخ سے ملازمت کا شمار کرنا ہم اساتذہ برادری کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے. یہ ہماری زندگی کے تین چار سال حذف کرنے کے مترادف ہے. حکومت پنجاب پہلے ہم سے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کرتی رہی اور پھر اپریل دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب اسمبلی کے ذریعے قانون منظور کروا دیا کہ ملازمت کا آغاز مستقلی کی تاریخ سے تصور ہوگا. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تمام کے تمام پروفیسرز پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئے ہیں. یہ ادارہ مستقل بنیادوں پر بھرتی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس ادارے نے ہمیں تمام مراحل سے گزار کر ملازمت دی ہے. اس کا مطلب ہے کہ پہلے دن ہی سے ہمیں مستقل ملازم تصور کیا جائے. ڈاکٹر عطا نے یہ بھی بتایا کہ تحریک اساتذہ کےمطالبے پر 2015 میں کنٹریکٹ پالیسی ختم کرکے اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا . اس وقت بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ دوہزار بارہ اور دوہزار پندرہ والے اساتذہ کی تنخواہ برابر ہے. دوہزار بارہ والوں کو پندرہ میں مستقل کرکے تنخواہ کی ابتدائی سٹیج پر فکس کردیا گیا. اسی اثنا میں 2015 کا بیچ بھی آگیا. دونوں بیچز کی بنیادی تنخواہ ایک ہے جو ملازمت کے قوانین کے اصولوں کے خلاف ہے. ان دونوں بیچز کے درمیان تین سٹیجز کا فرق ضرور ہونا چاہیے جو اب نہیں ہے. دو اپریل دوہزار انیس کو پنجاب کے موجودہ وزیر تعلیم ہمایوں سرفراز نے میڈیا کے سامنے اساتذہ سے وعدہ کیا تھا کہ پروفیسرز کی پے پروٹیکشن اور سروس پروٹیکشن کا مسئلہ حل کروا دیں گے مگر بعد میں ہمایوں سرفراز اپنے وعدے سے مکر گئے. ہمارا خیال تھا کہ موجودہ وزیر تعلیم اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کروا کر اساتذہ کے دیرینہ مطالبے کو پورا کردیں گے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا. وزیر تعلیم کے اس عمل سے اساتذہ برادری میں بہت بے دلی پھیل گئی ہے. ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ تحریک اساتذہ کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام کالج اساتذہ کو تقرری کے پہلے دن سے ہی مستقل تصور کیا جائے اور ان کو تقرری کے پہلے دن ہی سے سارے بینفٹس دیے جائیں. اس کے علاوہ حکومت نے جو ناجائز کٹوتیاں کی ہیں انھیں فی الفور اساتذہ کو واپس کیا جائے