آج صبح سویرے بیدار ہوتے ہی جسونت سنگھ کے انتقال کی خبر سننے کو ملی۔ جسونت سنگھ بھارت کے زیرک سیاست دان تھے جو پارلیمانی داؤ پیچ سے لے کر خطے اور بین الاقوامی صورتحال پر نہ صرف اپنی راۓ رکھتے تھے بلکہ ایک ویژن بھی آنکھوں میں بساۓ رکھتے تھے۔ ان کے نظریات جو بھی تھے، لیکن عمر بھر وہ ان پر قائم رہے مگر ایسے تو بہت سے ہیں جنہوں نے اسی ڈھب سے زندگی گزاری۔
جسونت سنگھ کو جو چیز دیگر زعماء سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے تاریخ کو کسی تعصب کے بغیر پرکھنا۔ میرا اشارہ ان کی معروف کتاب Jinnah:India and Partitionہے جس میں انہوں نے تقسیم کا ذمہ دار نہرو کی تنگ نظری کو ٹھہرایا اور قائداعظمؒ کو دور اندیش اور روشن خیال رہنما کے طور پر پیش کیا۔ اس کتاب کی رونمائی ہوتے ہی بھارت کی پارلیمان، میڈیا اور ان کی اپنی جماعت میں بھونچال آگیا ، مخالفین اور اپنے ہم جماعت ساتھیوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ان سے ہمدردی رکھنے والوں نے ان کو کتاب کے صفحات ہذف کرنے کو بھی کہا اور معافی کے مطالبات بھی زور و شور سے سامنے آۓ۔
اس کٹھن وقت میں نہ صرف جسونت سنگھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے بلکہ میڈیا کی تنقید کا بھی مقابلہ کیا۔ اپنے موقف کی وجہ سے ہی ان کو بی جے پی میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، یاد رہے کہ وہ بی جے پی کے بانیوں میں سے تھے اور آنجہانی اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کے قریب ترین ساتھیوں میں سمجھے جاتے تھے۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ 2014 کے انتخابات میں پارٹی نے ان کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا اور آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے پر ان کو پارٹی ہی سے نکال دیا گیا۔
ان کی لوک سبھا میں کی گئی تقاریر ایک زیرک سیاستدان کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ جو قارئین پارلیمانی بحث و تکرار اور سیاست منطق اور علمیت کی چاشنی کا مزا چکھنا چاہیں وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ان کی بے شمار ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔
ان کے انتقال کے بعد آنجہانی پرناب مکھرجی کی صاحب زادی نے ٹویٹ کیا کہ ایک بار لوک سبا میں جسونت سنگھ نے تقریر کی اور کرام ویل کی بات کا حوالے کے بغیر ان کا ذکر کیا اور اس طرح اپنے موقف کو ٹھوس طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی۔جب پرناب مکھرجی کی باری آئی تو انہوں نے کرام ویل کا ذکر حوالے کے ساتھ کیا اور جسونت سنگھ کے نکتہ نظر کو رد کرنے کی کوشش کی۔ جب بیٹھک ختم ہوئی تو جسونت سنگھ پرناب جی کے پاس گۓ اور کہا کہ مجھے معلوم تھا آپ میری بات کو ایسے ہی پلٹو گے، بس میں تو آزما رہا تھا۔ ایسا پارلیمانی ماحول نہ تو اب ہندوستان میں ہے اور نہ ہی دنیا بھر کے مضبوط جمہوری نظام رکھنے والے ملکوں میں۔ یوں سمجھئے کہ وہ دور جسونت سنگھ کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔