شاید یہ تحریر میری زندگی کی سب سے پہلی تحریر ہو۔ میں کوئی مصنف یا لکھاری نہیں مگر کچھ آٹھ سالوں سے بیرون ملک موجود ہوں اور اپنی زندگی کے ان چند سالوں میں یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ نشیب و فراز دیکھ رہا ہوں۔ میری تحریر تمام پردیسی بھائیوں کے لیےہے جو عرصہ دراز سے بیرون ملک رزق کے حصول کے لیے اپنے پیاروں سے دور محنت اور مشقت میں خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔
شاید ان کے حالات سے ان کے گھر والے تو واقف ہوں مگر عوام کی نظر میں یہ لوگ دنیا ہی میں جنت حاصل کرنے والے لوگ ہیں کہ جنھیں دنیا کی تمام تر آرام و آسائشیں میسر ہو گئی ہیں اور بس اب ان کا بیڑا پار ہے۔
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حرف عام میں پردیس ہجرت کرنے والے دو بڑے طبقے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے ملک سے رزق کے حصول کے لیے خلیجی ریاست کا سفر کرتے ہیں دوسرے وہ جو پہلے کسی خلیجی ریاست کا سفر کرتے ہیں اور کچھ پیسے جوڑ تے ہی گوروں کے کسی ملک کی امیگریشن حاصل کرتے ہیں۔
عام لوگوں کی نظر میں زندگی کے وہ کامیاب لوگ ہیں جنہیں دنیا میں رہ کر یا یوں کہیں جنت میں رکھ کر جنت الفردوس مل گئی ہے۔ میرے زیادہ تر دوستوں نے جو امیگریشن حاصل کی تو ان کی خوشی نا قابل بیان تھی اور حقیقت میں باقی سب لوگوں کی حسرت بھی شاید نا قابل بیان ہی تھی۔
![](https://www.aawaza.com/wp-content/uploads/2020/08/Zafar-madal-300x244.png)
مگر ان امیگریشن حاصل کرنے والے دوستوں سے بعد میں جب بھی میرا رابطہ ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ کچھ دوست دو دو نوکریاں کرنے کے باوجود گزر بسر پورا نہیں کر پاتے اور اکثر کی شکایت یہی ہوتی تھی کہ ماحول ایسا سازگار نہیں کہ جس میں ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں۔ زیادہ تر کا کہنا ہوتا تھا کہ بس اب یہی آخری منزل ہے اور اب شہریت لے کے انہی حالات میں رہنا سیکھنا ہوگا۔
کیا خبر ایک دن دنیا یہی کر رہی ہے ہو کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
بہت کم لوگ یہ ارادہ بھی کرتے ہیں کہ بس ایک دفعہ شہریت مل جائے تو واپس اپنے وطن یا کسی خلیجی ریاست کا سفر کریں گے۔
میں چونکہ ایک خلیجی ریاست میں مقیم ہوں اس لیے اپنی اس تحریر میں کچھ ان واقعات کا ذکر کروں گا کہ جن واقعات نے میرے دل پر بہت اثر کیا ہے۔
سب سے پہلا واقعہ اس خاکروب کا ہے جو عید کے دن مجھے نظر آیا۔ کیونکہ ان لوگوں کی تنخواہ شاید سب سے کم ہوتی ہے یہ لوگ کچرا اٹھانے والی کمپنی کے مشترکہ گھر میں رہتے ہیں اور رہنے کے کمرے اور باورچی خانے بھی شیئر کرتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ پیسے بچیں اور وہ اپنے وطن اپنے پیاروں کو بھیج سکیں۔ یہ لوگ مالی مدد کے سب سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اکثر لوگ اپنی چلتی گاڑی روک کر انہیں کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔
یہ میری اپنے وطن سے دور پہلی عید تھی نماز عید کے بعد مسجد میں کھڑے ہوتے ہی مجھ سے کوئی عید نہ ملا کیونکہ کوئی کسی کو جانتا ہی نہیں تھا لہذا بس کچھ لوگ جو ایک دوسرے کو جانتے تھے گلے ملے اور باہر نکل گئے۔ کیونکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہی نماز پڑھنے گیا تھا اس لئے باہر میں بھی اپنے دوستوں سے عید ملا اور اسی پر صبر کیا۔ اس دن مجھے اپنے والد کا شفقت بھرا گلے لگانا اور اپنے بھائی کا پرجوش سینے سے سینہ ملانا بہت یاد آیا۔
کچھ ہی دور ناشتہ لینے کے لیے ہم نے گاڑی روکی تو میں نے ایک خاکروب کو دیکھا جس کو لوگ پیسے دیتے اور آگے بڑھ جاتے مگر کوئی بھی اسے گلے لگانے کو تیار نہ ہوتا اور وہ حسرت بھری نظروں سے لوگوں کو دیکھتا کہ شاید کہہ رہا ہو کہ آج مجھے پیسے نہ دو گلے لگا کے عید مبارک کہہ دو۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ گاڑی سے باہر نکل کے اس کو گلے لگا لوں کہ اسی اثنا میں ایک بندہ خدا نے اسے گلے لگایا اور وہ خاکروب بے اختیار رو پڑا کہ چلو آج اس دن کسی نے مجھے بھی گلے لگا کے عید مبارک تو کہا۔
دوسرا واقعہ مجھے ایک سعودی کولیگ نے بتایا کہ اس کے ڈپارٹمنٹ میں ایک نیا پاکستانی لڑکا نوکری پر آیا ہے اس سے مدد مانگی کسی طریقے سے مجھے ریاض سے دمام لے چلو کہ میرے والد صاحب چودہ سال سے وہاں غیر قانونی مقیم ہیں گھر کے خرچے اور ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی ورکشاپ پر مکینک کا کام کر رہے ہیں۔ میں کیوں کہ اپنی انجینئرنگ مکمل کرکےقانونی طریقے سے یہاں آیا ہوں لہذا مجھے وہاں جانا پڑے گا۔ قصہ مختصر کے چودہ سال کے بعد ایک باپ نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو دونوں گلے لگ کر اتنا روئے کہ میرے سعودی دوست کے آنسو بھی رک نہ سکے۔
کچھ بچے اپنے والد کی قربانیوں کو محسوس کرتے ہیں اور کچھ اس کے بالکل برعکس۔ اگلا واقعہ میرے اس دوست کا ہے جو تنخواہ کم ہونے کے باعث اپنی فیملی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ مسلم گھر پیسے بھیجتا ہے اور سال میں کوشش کرکے دو یا تین چکر لگا لیتا ہے تاکہ اپنے گھر والوں سے ملاقات ہو سکے۔ پاکستان سے واپسی پر ایک دن میں نے ا سے بڑا اداس پایا۔
اصرار کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں اس کی بیوی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی اور رات کے کچھ دس بجے اس کا سب سے بڑا بیٹا بائیک چلاتا ہوا گھر پہنچا کیونکہ حالات ہی کچھ اس طرح کے ہیں تو اس نے اپنے بیٹے کو غصے میں ڈانٹا کہ اتنی رات گئے کہاں گئے تھے یہ کہہ کر وہ بازار چلا گیا روٹی لینے راستے میں اسے خیال آیا کہ اس نے پیسے تو لیے ہی نہیں لہذا وہ دوبارہ گھر لوٹا اور چپکے سے اندر داخل ہوا پردے کی اوٹ سے اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں سے کہتے ہوئے سنا کہ ابو کب واپس جائیں گے ہمارا جینا دوبھر کر دیا ہے تو اس کی بیوی نے جواب دیا کہ بیٹا تھوڑے دن کی بات ہے میں بھی برداشت کر رہی ہوں تم بھی برداشت کر لو۔
اس نے بجھے دل کے ساتھ اور نم آنکھوں کے ساتھ مجھ سے کہا یار ہم اس پردیس میں کس کے لیے خاک چھان رہے ہیں۔
اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات ہیں کہ اکثر پردیس میں رہنے والے نظارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی تحریر کو بس ایک آخری واقعہ پر ختم کروں گا کہ جو اس کرونہ کی وباء میں پیش آیا۔ ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر دیہاڑی دار لوگ ہوئے کیونکہ وائرس کی روک تھام کے لیے پورا شہر بند تھا اس لئے ان لوگوں کو روزی کمانے کا موقع صرف انہیں اوقات میں ملتا تھا جو حکومت کی طرف سے مقرر تھے۔ کیونکہ بیماری اتنی خطرناک ہے اور اتنی ہی تیزی سے پھیلنے والی کے لوگ باوجود ضرورت کے ان کو کام نہیں دیتے۔ آپ اپنی گاڑی پر کسی لیبر مارکیٹ سے گزر رہے ہوں تو فٹ پاتھ پر بیٹھے بیلچے لیے یہ مزدور ہر گزرتی گاڑی کو اس حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ابھی کوئی گاڑی والا گاڑی روکے گا انہوں نے کچھ کام دے گا بہت سے لوگ آپ کو شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں پرفیوم فروخت کرتے نظر آئیں گے کہ جن کے پاس نوکری نہیں۔
پچھلے دنوں ایسا ہی ایک پردیسی بھائی پارک میں میرے پاس آیا اور گزارش کی کہ کچھ خرید لوں۔ اول تو میں نے منع کیا اور وہ چلا گیا مگر مجھے احساس ہوا کہ پتہ نہیں کن حالات میں رمضان کی تپتی بھوک میں یہ کام کر رہا ہے تم میں نے اس سے کچھ سامان لیے بنا کچھ مدد کرنے کی کوشش کی مگر اس کی خودداری نے گوارا نہ کیا اور پھر مجھے پرفیوم کی بوتل فروخت کرتے ہوئے کہا کہ میں مجبور تو ہوں مگر گداگر نہیں۔ مجھے بھی دل پہ ایک چوٹ سی لگی کہ کسی کی خودداری کا امتحان کیوں لیا۔
ہم پردیسی پردیس میں رہ کر کچھ زیادہ ہی حساس ہوجاتے ہیں۔ اپنے وطن میں اپنے پیاروں کی طرف سے تکلیف ہماری راتوں کی نیند سے چھین لیتی ہے۔ شاید ہمارے گھر والوں کو اس کا احساس ہی نہیں کہ ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے پردیس میں رہنا کوئی آسان کام نہیں اور اس کو شاید صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو خود ان حالات سے گزرا ہو۔
اس کرونہ کی وباء کے زمانے میں میں خاص طور پر اپنے ہم وطنوں سے یہی درخواست کروں گا کہ اپنے پیارے بیرون ملک مقیم باپ بھائی یا شوہر سے غیر ضروری فرمائشیں نہ کریں اور حکومت وقت سے بھی گزارش کروں گا کہ مشکل کی اس گھڑی میں بیرون ملک مقیم ان لوگوں کا ساتھ ضرور دیں جنہوں نے خون پسینہ ایک کرکے اپنے ملک کے لیے زر مبادلہ بھیجا اور آج وہ ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ آخر میں اپنی تحریر ان اشعار پر ختم کروں گا۔
کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے دیوانے ہی رہے
ہم شہروں میں رہ کر بھی پرانے ہی رہے
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے مگر
درد کے موسم سہانے تھے سہانے ہی رہے
اے پرندوں ہجرت کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے
(اقبال اشعر )
Bitter truth !!
This is reality and beautifully written.
JAZAK ALLAH KHALID ZAFAR BHAI, BOHAT HI UMDA THREER HAY, SAB KUCH HAQIQAT K EIAN MUTABIK.
KAMRAN KHAN KK.
مصنف نے تارکین وطنوں کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے کئی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ھے۔
کیا ہی خوب لکھا۔ ایسا لگا جیسے میری کہانی پڑ رہا ہوں۔ بہت اچھی عکاسی کی ہے پردیسیوں کی۔
Bhi Callum sun ky rona agya jin py guzarti ha un ko he asal pata hota ha Allah pak ap ko himat or taqat dy
Aik dardmand Kay dil ki aawaz hay.. ya shaysd apno say doori na sahi janay ka gham liay alfaz kay ghoron ko jazbat kay sehra mai dorati yeh tehreer dil kay taar hila gai..
Bhai itna depressing column se start liya hai apnay literary career ka… Alhamdulillah the saudi expats are blessed to be living in Makkah and Madinah as not everyone gets chance to visit Allah’s house that easy and frequently.
کیا خوب تحریر ہے ۔۔۔ پردیس کی زندگی مشکل زندگی اور اخر میں ہوتا کیا ہے کہ آپ نے کیا ہی کیا ہے۔۔۔پوری جوانی ساری خوشیاں قربان کر کے بھی کچھ نہیں پاتا۔۔۔۔
زبردست
جذاک اللہ خیر واحسن جزا، سچائی عیاں ہے آپکی تحریر میں
خالد بھائ ، آپ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔۔ آٹھ سالوں میں آپنے اتنا کچھ محسوس کیا ورنہ لوگ پردیس میں رہتے رہتے کچھ بےحس ہو جاتے ہیں۔ زیل میں شعر میری داستان ہے۔
قفس میں رہتے رہتے الفت ہوگئ ہے صیادوں سے
جو میرے پر نکلتے ہیں میں خود ہی نوچ دیتا ہوں
و السلام آصف
Speech less
Old is gold, this is reality of expect life.
بہترین مضمون
Very true but very sad. This is what happens with overseas and its a story of 90% Pakistani.
Masha Allah, Reality is written in very simple words, It is valuable Column.
ارے خالد بیٹا تم نے تو پرفیکٹ لکهاریوں کی طرح لکهاریوں ہے مجهے اندازہ ہے کہ سمندر پاکستانی کس طرح کی زندگی جیتے ہیں بہرحال تمهاری پہلی تحریر بہت ہی پرسوز اور پر اثر ہے امید ہے کہ تمهاری اگلی تحریریں بهی پڑهنے کو ملیں گئ
Br. Khalid has put across a reality of life, which every other expatriate has felt and it is an enduring situation.
Masha Allah aap nay haqqeeqi naqsha khaincha hay Aaeena dikha ya hay logon ko such bataya hay Allah Aap ko khosh rakhhay Aameen
Great but painful , Allah sy dua hy ki wo sub Pakistan’s ki madad farmaya chahy wo Bahir Kamany ky liya rehty hn ya Pakistan my un ky rishty dar (Family) hon
Fast shipment well packaged as advertised complete info works great Recommended.
Kya khoob likha hy Khalid bhai …… Ziada ter is terha k waqyat khaleeji ryasaton mein he paish atay hain jab k ye wo gher mumalik hain jo apni muslim community ko apna k muslim world ko ek mazboot muqaam deskty hain ….. Per ham yahan jitna bhi waqt laga len akher mein humein isi terha bhej dya jata hy jisterha ham ek imprted spare ki terha namgwaye gaye thay or ab scrap ker dye gaye.
Kher Bohat acha likha hy ALLAH apko jazaye kher de
Is article k Musannif Aik intehai hassas aur zimmadar shahksiat maloom hotay hain aur jitni khubsorti k sath inhon na apni ab beti bayan ki hai yon lgta hai k goya bari gahrai say inhon na apnay nafs pa qabo rakhtay hoay bahr rhnay k faisla kya jo k bzaat i khud Aik bht bara jehad hai. Yeh har us shakhs ki dil ki Awaz hai jo bahr hasool e muaash say beroon e mulk gya hoa hai. ALLAH hum sab k hamio nasir ho. Ameen.
Really it’s very true and Heart touching
Very nice. You reminded me, my first Eid which I celebrated away from home.
Well picturised khalid saab.
مسافر کل بھی تھا
مسافر آج بھی ہوں
کل اپنوں کی تلاش میں تھا
آج اپنی تلاش میں ہوں
زبردست
It’s true and heart touching Khalid Bhai.
Very Nice true,,,, Aye prinda hijrat karna sa kia hasil hoa!!!
Its sad voice of those Pakistani’s who forced to go gulf countries to support their love once and mostly they face a terrible situation here in Gulf and back in Pakistan. Unfortunately, our few families consider us a money making machine and nothing than this.
These lines are the feeling of kind hearted man.
MashaaAllah behad umda tehreer.
%Truth for expect life.
Behtareen tahreer hai, Padhne ke baad Kahi’n aisa nahin likha ki sahafat ki duniya me ye aapka pahla qadam hai, Ma’sha’Allah.
Behtareen tahreer hai, Padhne ke baad Kahi’n aisa nahin laga ki sahafat ki duniya me ye aapka pahla qadam hai, Ma’sha’Allah.