اگلے دن صبح صبح ناشتے کی میز پر کیانی صاحب بہت پر جوش دکھائی دے رہے تھے ان کے مقالے کا موضوع قرطبہ اور علامہ اقبال کے حوالے سے تھا۔ صدف بھی اپنا مقالہ پڑھنے کی تیاری کر چکی تھیں اور میں نے بھی عاکف ارصوئے اور علامہ اقبال کے اشعار میں جد و جہد آزادی کے مشترکہ پہلوؤں کا خوب اچھا مطالعہ کر لیا تھا۔ آج کانفرنس کا بہت اہم اور آخری دن تھا۔ آج کی کانفرنس مکمل طور پر اردو زبان میں تھی جس کا ترجمہ ترکی زبان میں بھی پیش کیا جانا تھا ۔ ڈاکٹر راشد حق نے بتایا تھا کہ یہ دن کانفرنس کے حوالے سے بہت اہم دن ہے اور پروگرام کے مطابق دو حصوں میں میں بھی منقسم تھا۔

اُس روز موسم بہت اچھا تھا۔ ہم تینوں اپنے مقالہ جات اور دیگر ضروری سامان کے ساتھ جب ہوٹل سے باہر آئے تو راجہ شفیق کیانی صاحب نے کہا کہ ہم بس اور پیدل جانے کے بجائے ٹیکسی لے کر سیدھے یونیورسٹی چلے جائیں گے۔ ہم ٹیکسی کی تلاش میں ہوٹل سے باہر بڑی سڑک تک آئے۔ استنبول شہر میں اتنی ٹیکسیاں سڑکوں پر گھومتی رہتی ہیں لیکن پتہ نہیں اس وقت ہمیں کوئی خالی ٹیکسی کیوں نہیں مل رہی تھی۔ جب محسوس ہوا کہ وقت گزرا جارہا ہے تو ہم نے سوچا کہ بس لے کر ہی یونیورسٹی پہنچا جائے تاکہ دیر نہ ہو ۔ بس اسٹاپ تک واک کر کے پہنچے ہی تھے کہ ایک خالی ٹیکسی ہمیں نظر آئی ۔ کیانی صاحب نے بغیر مول تول کیئے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ٹیکسی والے سے جامعہ جانے کے لیے انگریزی میں درخواست کی۔
اُن کا لہجہ بہت مودبانہ تھا شاید اسی لیے ٹیکسی والے نے بلا چون و چرا درخواست قبول کر لی اگرچہ یہاں بھی پاکستان کی طرح دو تین کلو میٹر کے فاصلے پر کوئی ٹیکسی والا منہ مانگی کرائے کی رقم کے بغیر تیار نہیں ہوتا۔ اس وقت تو ہم ٹیکسی میں بیٹھ چکے تھے۔ بہرحال اب تو یونیورسٹی پہنچنا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جب ہم جامعہ استنبول کے صدر دروازے پر پہنچے تو راشد حق صاحب بہت سا سامان اٹھائے دوسری جانب کہیں جاتے دکھائی دیئے۔ ہم ایک دن قبل شروع ہونے والی کانفرنس کی اس قدیم عمارت میں داخل ہوئے تو سارا ہال خالی تھا ایک دو اسٹوڈنٹ کچھ کام کرتے دیکھائی دئیے۔ صدف مرزا نے ان سے پوچھا کہ کیا کانفرنس اس ہال میں نہیں ہے؟ تب ہم پر انکشاف ہوا کہ راشد حق صاحب سامان اٹھائے جامعہ استنبول کے نئے کیمپس میں جارہے تھے اور آج کی کانفرنس وہاں ہونے کا انتظام ہے۔ میں نے فوری کانفرنس میں تقسیم ہونے والے کتابچے کو کھول کر دوسرے دن کی کانفرنس کا مقام چیک کیا۔ وہاں پتہ جامعہ کے اسی حسن پاشا ہال کا ہی لکھا تھا۔ بہرحال ہم نے ایک طالب علم سے راستہ سمجھ کر پیدل چل پڑے۔ لیکن یونیورسٹی کا یہ کیمپس نئی اور پرانی عمارتوں اور مختلف شعبہ جات کی طویل و عریض عمارات سے معمور تھا اور ہر شعبے کا نام ترکی زبان میں ہی لکھا ہوا تھا۔ کچھ دیر تک کانفرنس ہال تلاش کرتے کرتے تھک کر ہم ایک عمارت کے بیرونی باغیچے میں بنی پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئے۔
صدف مرزا نے یونیورسٹی کے منتظمین میں سے کسی کو فون کرنا چاہا ہی تھا کہ جناب حلیل طوقار صاحب اور کچھ لوگ وہاں سے گزرتے دکھائی دیئے ۔ صدف نے انہیں آواز دے کر روکنے کی کوشش کی اور ہم تیزی سے اٹھ کر ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے بلکہ دوڑ لگا دی۔ ہانپتے کانپتے ہم جامعہ استنبول کی ایک خوبصورت عمارت میں داخل ہوگئے جہاں عمارت کی بالائی منزل پہ کانفرنس کے انعقاد کا انتظام تھا۔ یونیورسٹی کا سارا عملہ ، چانسلر اور شعبہ اردو کے اساتذہ و طالب علم سمیت پاکستانی سفارتخانے کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان ترکی اور کشمیر کے جھنڈوں سے خوبصورت سنہری مینا کاری کیا ہوا ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔
جامعہ استنبول کی یہ عمارت اور خاص طور پر یہ ہال انتہائی حد تک خوبصورت ثقافتی رنگ و نقش و نگار سے آراستہ تھا۔ ہال میں پہنچ کر ہم نے سب سے پہلے اپنی نشستیں سنبھالیں اور فوراً ہی راجہ شفیق کیانی صاحب اور صدف مرزا نے اپنے موبائل فون کے زریعے سوشل میڈیا پر لائیو نشریات کا آغاز کرنا شروع کر دیا تھا۔ غزل انصاری اور شاہد صاحب بھی ہال میں موجود تھے لیکن فہیم اختر صاحب نظر نہیں آرہے تھے۔ ہم تمام مندوبین کو حلیل طوقار صاحب نے ایک صف میں بیٹھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔
آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خان مہمان خصوصی تھے جب کہ ترکی میں پاکستان کے سفیر جناب محمد سائرس سجاد قاضی بھی بطور مہمان اس کانفرنس میں مدعو تھے۔ اس کے علاوہ اردو اور فارسی کے شعبے سے بھی کئی اہم شخصیات اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہم اشخاص اس کانفرنس کی تقریب میں شامل تھے جہاں جامعہ استنبول کے چانسلر اور سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود آق ، شعبہ ادبیات کے ڈین ڈاکٹر پروفیسر حیاتی دیومیلی ، شعبہ اردو کے نگراں جناب ڈاکٹر جلال صوئدان اور جناب ڈاکٹر حلیل طوقار تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ اتنے عملی و ادبی افراد کے درمیان میں خود کو قابل رشک سمجھ رہی تھی اور بار بار یہ احساس بھی فخر و انسباط کا سبب بن رہا تھا کہ ہماری اردو زبان اپنی وسعت و شیرینی میں ہی نہیں بلکہ امن و محبت میں بھی جہد آزادی کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر حلیل طوقار نے ہمیں باری باری تمام مہمانوں سے متعارف کروایا۔ صدف مرزا نے اپنی تازہ تصنیف” ڈینش شاعرات “ مختلف لوگوں کو پیش کرتے ہوئے تصویریں بنوائیں۔ جناب راجہ شفیق کیانی صاحب نے اس وقت ہم سب کی مہمانوں کے ساتھ اور ڈائس پر بھی تصویریں بنائیں۔ کچھ دیر بعد تلاوت کلام پاک سے کانفرنس کا باقائدہ آغاز کیا گیا۔
جس کے بعد تقریب کے افتتاحی حصے میں جنگ آزادی اور عاکف ارصوئے و علامہ اقبال کی شاعری کو بنیاد بنا کر کشمیر کی آزادی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے صدر آزاد کشمیرجناب مسعود خان صاحب نے نہایت عمدہ پیرائے میں اپنی تقریر پیش کی جس کا براہ راست ترکی ترجمہ جناب حلیل طوقار صاحب نے پیش کیا۔ اس کے علاوہ پروگرام کے اس حصے میں ترکی میں پاکستان کے سفیر جناب محمد سائرس سجاد قاضی نے بطور مہمان اس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جنگ آزادی کی اس صد سالہ شاندار تقریب اور کانفرنس پر ترک حکومت و عوام کو پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر مبارکباد پیش کی اور علامہ اقبال کے حوالے سے اس کانفرنس کے انعقاد پر جامعہ استنبول کو مبارکباد پیش کی ۔
اس کے علاوہ جامعہ استنبول کے چانسلر اور سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود آق ، شعبہ ادبیات کے ڈین ڈاکٹر پروفیسر حیاتی دیومیلی ، شعبہ اردو کے نگراں جناب ڈاکٹر جلال صوئدان اور جناب ڈاکٹر خلیل طوقار نے بھی حاضرین سے خطاب کیا۔ پروگرام کے اس حصے میں اردو ترجمہ کی ذمہ داری جناب حلیل طوقار صاحب بخوبی انجام دیتے رہے۔ وہ نہایت عمدگی سے ترکی سے اردو اور اردو سے ترکی زبان کا براہ راست ترجمہ کرتے رہے۔ بعد ازاں یہ ذمہ داری کانفرنس کے دیگر منتظمین نے بھی سنبھالی اور کھانے کے وقفے تک کانفرنس میں پیش کئے جانے والی گفتگو اور تقاریر نے کانفرنس کے اس حصے کو نہایت دلچسپ بنائے رکھا۔ بہت سے ترک افراد اس روز علامہ اقبال اور عاکف ارصوئے کے فلسفہ شاعری اور جد جہد آزادی کے یکساں پہلوؤں اور نکات سے بھی آگاہ ہوئے۔
اس موقع پر علامہ اقبال کی شاعری کا ترکی ترجمہ اور عاکف ارصوئے کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی گاہے گاہے پیش کیا جاتا رہا۔ جہاں اس کانفرنس میں ہم سب جدو جہد آزادی کے ان شعراء کے فکری فن کو جاننے اور محسوس کرنے میں مصروف تھے وہیں صدف مرزا اپنے کسی عزیز کی امریکہ سے استنبول میں موجودگی کی خبر مسلسل واٹس ایپ پر موصول کر رہی تھیں اور انہیں اس کانفرنس کے بعد یا درمیان میں کہیں ملاقات کے لیے بلانے کی تراکیب میں غرق تھیں۔