رات، بہت ہی پیارے بھائی نے دل لگی یا دل شکستگی سے لکھا، “چینل کہتا ہے، تمھارے لکھے ڈرامے کی ریٹنگ نہیں آ رہی۔”
گویا ریٹنگ چارٹ کے گراف گرنے کا سارا دوش رائٹر کا ہے۔
مجھ سے تو خیر کوئی لکھواتا ہی نہیں، لیکن بھولے بھٹکے کوئی لکھوائے اور پھر ایسا کہے، تو میں اسے پوچھوں، کیا “ریٹنگ لانا” رائٹر، ڈائریکٹر، ایکٹر کی جاب ہے؟ اچھا ایسا ہے تو کیا فکس پوائنٹ چارٹ ان کی مشاورت سے بناتے ہو؟ ریٹنگ فن کاروں ہی کو لانی ہے، تو کانٹینٹ، مارکیٹنگ اینڈ اسٹریٹجی ٹیم کو گھاس چرنے کے لیے بھرتی کیا ہے؟
ایک بار اڈٹنگ ٹیبل پر میں نے کیمرا مین سے شکوہ کیا کہ یہ دیکھیے، آپ سے کیمرا ہلا تو شاٹ جرکی ہو گیا ہے، اب میں اس شاٹ کا کیا کروں؟
انھوں نے رسان سے جواب دیا، “اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ رکارڈنگ کے وقت آپ مانیٹر پہ یہ شاٹ دیکھ رہے تھے، آخر میں آپ نے ‘او کے’ کہا۔ جب ‘او کے’ کہ دیا، تو ذمہ داری بھی لیں۔ کیا آپ مجھے کہتے، میں دوبارہ شاٹ نہ لیتا؟”
یہ انتہائی منطقی جواب تھا، بحث کی گنجائش ہی نہ رہی۔ میں کیمرا مین نہیں ہوں لیکن مذکور کیمرا مین کو میں اپنا استاد مانتا ہوں۔ کیوں کہ ان سے میں نے ایسے بہت سے اسباق لیے۔
طریق یہ ہے کہ ایک پروفیشنل رائٹر، چینل یا پروڈکشن ہاؤس کی کانٹینٹ ٹیم کی مشاورت سے آگے بڑھتا ہے۔ دونوں طرف سے تجاویز دی جاتی ہیں، لی جاتی ہیں۔ ایک مرحلے پر اسکرپٹ ‘او کے’ کیا جاتا ہے۔ جس نے ‘او کے’ کیا، وہ ذمہ دار ہے، ذمہ داری لینا بھی سیکھے۔ جیسا کہ کانٹینٹ ٹیم نے رائٹر کو او کے کہا، ڈائریکٹر نے کانٹینٹ ٹیم سے اسکرپٹ اٹھاتے ‘او کے’ کہا۔ کاسٹنگ کرتے ‘او کے’ کہا۔ شاٹ لیتے تب تک ری ٹیکس لیں، جب تک ‘او کے’ نہ کہا گیا۔ اڈٹنگ روم سے ‘او کے’ ہو کر نکلا۔ چینل نے ‘او کے’ کہ کر نشر کیا۔ اور جب ریٹنگ چارٹ پہ نمایاں نہ ہوئے تو کسی ایکٹر، ڈائریکٹر، رائٹر، میوزیشن، کیمرا مین، میک اپ آرٹسٹ، بیسٹ بوائے کو نا کامی کا ذمہ دار قرار دینے والا پروڈیوسر یا ٹی وی چینل، در حقیقت یہ کہنا چاہتا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ ‘او کے’ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ بس میں منہ کھولتا ہوں اور جو منہ سے نکلے وہ ‘او کے’ ہے، چاہے تھوک ہی کیوں نہ ہو۔
ہر ہر اسٹیج پر، ہر ہر کو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس ٹیم کا کپتان کون ہے؟ جو کپتانی کا دعوا کرتا ہے سامنے آ کے بتائے کہ وہ اپنی ٹیم کو اچھے سے نہیں کھلا سکا تو کیوں؟ اچھا کھیلیں، جیت جائیں، تب تو سبھی مین آف دی میچ بن بن سامنے آتے ہیں۔
یہ ایسی سی قلم برداشتہ تحریر ہے۔ ورنہ کہنے کو اور بہت کچھ ہے، کہتے چلے جائیں۔