رکھ کے کاندھے پہ ہاتھ چپکے سے
گزر جاتی ہے رات چپکے سے
صاف اس کو سنائی دیتا ہے
میں جو کہتا ہوں بات چپکے سے
شام کی سبز شاخوں پر طائر
پڑھ رہے ہیں صلوات چپکے سے
سننے والوں کو بھی پتہ نہ چلے
غزل بن جائے نعت چپکے سے
بات سے بات کو نکالتا ہے
وہ بدلتا ہے بات چپکے سے
وہ جو چاہے تو کھیل الٹ جائے
جیت بن جائے مات چپکے سے
پار کر لیں گے ایک دن ہم بھی
دنیا کا پل صراط چپکے سے
آؤ اک دوسرے کی مدد کریں
بھول کر ذات پات چپکے سے
دھن بنا رنگ برنگ کپڑوں سے
اور کوئی نغمہ کات چپکے سے
اس کے ہلکے سے اک اشارے سے
چل پڑیں شش جہات چپکے سے
کر دے مجھ کو بھی دنیا میں ممتاز
ڈال مجھ پر بھی جھات چپکے سے
کس طرح فتح کر لیا تو نے
دل کا یہ سومنات چپکے سے
لشکری کر رہے ہیں ہاو ہو
بہہ رہا ہے فرات چپکے سے
پیالہ بھر دیتا ہے مرا کاشف
دیتا ہے کوئی ساتھ چپکے سے
******
اشفاق احمد کاشف کا تعلق فیصل آباد سے ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ وہ پیدائشی شاعر ہیں۔ جامعہ پنجاب سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں نمایاں نمبروں سے ماسٹرز کیا۔ ملک کے بڑے چیمبرز آف کامرس میں سے ایک یعنی لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شعبہ تحقیق و پالیسی کی قیادت کی۔ گزشتہ کئی برس سے امریکا میں ہیں اور شاعری کا سلسلہ جاری ہے۔
اشفاق کا تعلق ایک خالص کاروباری گھرانے سے ہے لیکن وہ شاعر کا دل لے کر پیدا ہوئے۔ 80ء کی دہائی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں طلبہ تنظیموں کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں تشدد نے جنم لیا اور کئی طلب جاں بحق ہو گئے تو اس حساس شاعر نے نوعمری کے زمانے میں ایک ایسا شعر کہا جس میں اس زمانے کی نئی نسل کا گہرا دکھ جھلکتا ہے ؎
خون بہا ہے پھر سڑکوں پر
کون ہے جو دیوانے ہوئے ہیں؟
اشفاق کو اسی زمانے میں ممتاز شاعر ڈاکٹر ریاض مجید اور اس کے بعد نذیر قیصر کی رہنمائی میسر آگئی جو ان کے فن کارانہ اظہار میں مزید معاون ثابت ہوئی۔