اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان جو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم تھے، ایک روز کچھ جلدی میں گھر سے جارہے تھے کہ انکی بیٹی نے یاد دہانی کرائی کہ آج دیوار گریہ پر سالانہ دعا کا دن ہے۔ بن گوریان نے جواب دیا کہ ریاستی امور سے متعلق کچھ اہم کام نمٹانے ضروری ہیں۔ انکی بیٹی نے کہا کہ سالانہ دعا سے اہم اور کیا کام ہو سکتا ہے؟ بن گوریان نے تاریخی جواب دیتے ہوا کہا ” اگر صرف دعا سے کام ہوتے تو تمام عرب اور مسلمان حج کے اتنے بڑے اجتماع میں اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعا مانگتے ہیں پر عمل سے عاری ہیں، تو نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ عرب اور مسلمان کس حال میں اور نوزائیدہ اسراۂیلی ریاست دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ میں ریاستی امور طے کرکے شام کو دعا میں بھی شامل ہو جاؤں گا۔ آج کروڑوں مسلمان چند لاکھ کی آبادی والے ملک کے سامنے بے بس ہیں اور آہستہ آہستہ اسکی شرائط پر تعلقات استوار کرنے کی فکر میں ہیں۔
اسرائیل کے ایک ظالم، جابر، نسل پرست ہونے میں کوئی اختلاف نہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے اس وقت اسرائیل، مغرب کو سبزیاں، پھل اور پھول برآمد کرتا ھے حالانکہ اسرائیل کا ساٹھ فیصد حصہ صحرا اور باقی پتھریلی، سنگلاخ، پہاڑی زمین پر مشتمل ھے۔سارے اسرائیل کی سیوریج، کو سمندر میں چھوڑنے کے بجاۓ مختلف ٹریٹمنٹ پلانٹس میں چھوڑا جاتا ھے جہاں اس میں سے فاسد، زہریلے مادے نکال کر یہ پانی ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ھے۔ پانی کے معیار کو مد نظر رکھتے ھوۓ یہ پانی جنگلات، پھولوں، پھلوں اور سبزیوں کی افزائش کیلیے استعمال کیا جاتا ھے۔ اس وقت کوئی تین لاکھ ایکڑ کے اراضی اس پانی سے سیراب ہو رہی ہے۔ اس وقت اسرائیلی ماہرین کی خدمات ترکی، عرب امارات، بھارت، سعودیہ عرب سمیت دنیا کے اکثر ایسے ممالک لے رہے ہیں جہاں پانی کی کمی ہے۔
آج ہم جیسے حالات سے دوچار ہیں، ہمیں اپنے اس دشن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی واٹر مینجمنٹ پالیسی ہے ہی نہیں۔ بہرحال، وقت ھم جیسی قوموں پر رحم نہیں کرتا۔ پاکستان ان پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں اگلے بیس برسوں میں پینے کو بھی پانی نہیں ہو گا۔ زراعت تو بہت بعد کی بات ہے، جوکہ ہماری معیشت کی ریڈھ کی ہڈی بھی کہلاتی ہے۔ سوال یہ ھے کہ ہماری تیاری کیا ہے؟ کیا ہمارے لیے اسرائیل سے سیکھنے، سمجھنے کو کچھ نہیں؟ گندم، کپاس، مکئی کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ اور پانی کا ضیاع بھی۔ ایسے میں بن گورویان کے وہ الفاظ ذہن میں آجاتے ہیں جو انھوں نے اپنی جدو جہد کے بارے میں کہے تھے، ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو ناگزیر ہے کہ مسلسل جدو جہد کریں اور اس سلسلے میں اپنے دشمن سے سیکھنے میں بھی کوئی عار نہیں ہونی چاہئے۔