خان صاحب کے متعلق یہ بات بلا ججک کہئی جاسکتی ہے وہ بہت بڑے اناپرست اور خود پسند ہیں اول تو اناپرستی ایک بوجھ ہے دوم نا اہلی کے باوجود وہ ایک اناپرست ہیں شاید اس بوجھ کو اٹھانا پاکستانی قوم پر کچھ زیادہ ہی بھاری پڑھ رہا ہے اور یہ دکھ بھی رہا ہے
وہ اتنے اناپرست ہیں کہ جب وہ کسی تقریب میں جاتے ہیں تو یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ کوئی ان سے یعنی عمران خان سے بہترین تقریر کرے اور جب وہ خود تقریر کرتے ہیں تو سب سے سبقت لے جانے کے لیے کوئی نہ کوئی انوکھی بات کر دیتے ہیں جیسے تاریخ کے حوالے دینا، ایسا ہی کچھ دنوں پہلے بلوچستان کے شہر تربت میں دیکھا گیا کہ انہوں نے تاریخ کا حوالہ دے کر تربت کو ریگستان میں صحرا، صحرا میں پانی،پانی میں جنگل قرار دیا تھا اور انہیں اس پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اور اس سبقت لے جانیوالے عادت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے
عوام، حالات، مہنگائی اور زمینی حقائق عمران خان کی اہلیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نہ ان سے ملک کا نظام سنبھالا جاتا ہے نہ اعلی عہدے اور نہ ہیاپنے معاملات، ان کے دور میں نہ ان سے انڈے والے دکاندار سنبھالے جاتے ہیں نہ ہی بائیس گریڈ کے آفیسرز انہیں ایک وزیر اعظم کی حیثیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج جتنے بھی وزیر اعظم، صدر یا ڈکٹیٹر ہوے ہیں اگر ان سب کے ادوار کا جائزہ لیں تو کسی کو بھی عوام کی اتنی بے اعتمادی کا اتنا سامنہ کرنا نہ پڑا جتنا عمران خان کو ہے
لیکن پھر بھی اگر دیکھا جائے تو عمران خان بہت پرسکون نظر آتے ہیں اسکی وجہ نہ انکی خود اعتمادی ہے نہ ہی انہیں لانے والے سلیکٹرز پر بھروسہ۔ بلکہ اس کا سبب ان کے غلط تصورات ہیں۔ ان پر ان سے مطالعہ کیے گئے کتابوں اور کامیاب لوگوں کی سوانح عمری کا غلط اثر ہوا ہے اور اب وہ اپنے آپ کی نظر میں اپنے لیے کچھ زیادہ ہی پراعتماد تصورات رکھتے ہیں
ایک ولی االلہ اور اس کے پیروکاروں پر کیسے کیسے دن نہیں آتے، جتنی بھی پریشانی آجائے، ان کی نگاہ میں لیکن یہ سب امتحان ہی تو ہوتا ہے بالآخر جیت تو انہی کی ہوتی ہے یہ ہار اور مصیبتیں تو عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ایک کامیاب شخص کی مثال لے لیں تو پہلے اس نے بہت سے اذیتیں سہہ لی ہوں گی تب جاکر وہ تاریخ کا ایک باب بنا۔
عمران خان خود کو انہی کرداروں میں شمار کرتے ہیں اور وہ اس وقت کے مہنگائ کو، عوام کی ان پر اس قدر بے اعتمادی کو، لوگوں کی اس سرکشی کو اپنے لیے ایک امتحان سمجتے ہیں، اس وقت قوم پر ان کے نا اہلی اور انا کی وجہ جو حالات آے ہیں، عمران خان کی نظریے میں دراصل ایک غیبی امتحان ہے بلکل ایسا امتحان جیسے پیغمبروں کی قوموں پر ہوتا تھا۔
دوسری وہ عوام کی بڑھتی ہوئ بے اعتمادی کو دراصل عوام کی ناسمجھی کہتے ہیں بلکل ایسی نا سمجی اور بے قدری جو مختلف بہت سے بڑھے لوگوں کو اپنی ابتدائی زندگی میں سامنا کرنا پڑھا۔ وہ اپنے تصورات میں ایک مفسر، ایک فلاسفر، ایک لیجنڈ اور ایک ولی االلہ ہیں