اب اس بات پر عمران خان کے حامی اینکرز ، دانشور اور خود حکومتی حلقے بھی متفق نظر آرہے ہیں کہ لاہور کا جلسہ بہت بڑا ہوگا اور تمام تر حکومتی وسائل سے بھی اس کو روکنا ممکن نہیں رہا چنانچہ نئے وزیرداخلہ شیخ رشید نے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دئیے کہ ہم رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن اندر خانے گیم کچھ اور چل رہا ہے کہ مینار پاکستان گراؤنڈ نہ بھرپائے کیونکہ وہ اتنا بڑا گراؤنڈ ہے کہ صرف لاہور کی بنیاد پر کوئی سیاسی پارٹی اسے آج تک کی ہسٹری میں نہیں بھرسکی۔
اس کےلئے پورے پنجاب سے لوگ آتے ہیں بلکہ دوسرے صوبوں سے بھی شمولیت ہوتی ہے تب جاکے پاور شو ہوتا ہے جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ عمران خان کے مینار پاکستان جلسے میں پورے پنجاب سے بسوں کی لائن لگ گئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی پوری طاقت اس کے پیچھے تھی تب کہیں گراؤنڈ بھرا تھا تو ایسے وقت میں جبکہ وسط پنجاب میں پی پی پی اور جے یو آئی کی سیاسی اور ووٹنگ طاقت نہ ہونے کے برابر ہے تو مینار پاکستان گراؤنڈ بھرنے کی زمےداری ن لیگ پر عائد ہوچکی ہے۔
بلاشبہ ن لیگ گراؤنڈ بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن حکومت کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ لاہور سے باہر سے کم سے کم لوگ جلسہ میں شریک ہوسکیں اور یوں جلسہ کی طاقت ایک لاکھ سے کم رہ جائے اور یہی مریم نواز کی کرشمہ شخصیت کا امتحان ہوگا کہ وہ صرف لاہور سے کتنے لوگوں کو جلسے میں لاسکتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کا اس امرپر اتفاق ہے کہ لاہور سے کبھی بھی کسی جلسے میں بیس تیس ہزار سے زائد لوگ شریک نہیں ہوئے اور یہی داؤ اب حکومت کھیلنا چاہتی ہے کہ لاہور کے جلسے کو ملتان اور پشاور کے جلسوں کی طرح چھوٹا ظاہر کردیاجائے۔
دوسری طرف مریم نواز کی لاہور میں شاندار اور طویل طویل ریلیوں نے حکومتی دانتوں پر پسینے نکال دئیے ہیں اور انھیں بھی تسلیم کرنا پڑگیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں مریم نواز سے بڑا crowd puller اور کوئی نہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ مریم نواز کو فوری طور پر بے نظیر جتنا سیاسی سٹیٹس مل جائے کیونکہ اس صورت میں پنجاب سے پی ٹی آئی بالکل صاف ہوجائے گی اور اگلے الیکشن میں ن لیگ پنجاب سے کلین سویپ کرجائے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں۔ اندر خانے ن لیگ کے ممبران اسمبلی پر پریشر ڈالا جارہا ہے کہ وہ کم سے کم لوگوں کو جلسے میں لائیں اور مریم نواز کے سامنے بس اپنی حاضری لگادیں ۔