بہت کم پاکستانی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ خلا میں پہلا شٹل تو روس نے بھیجا لیکن سرزمین قزاقستان کی تھی اس ملک کارقبہ 2724900 مربع کلومیٹر ہے۔ جو اسے رقبے کے لحاظ سے اسلامی دنیا کا پہلا اور دنیا کا نوواں بڑا ملک بناتا ہے۔ یہ وسیع و عریض ملک لینڈ لاک علاقہ ہے۔ اس کے 159شہر اور 19ملین آبادی میں 40%مسلمان اور باقی عیسائی ،بدھ مت اور ہندو وغیرہ ہیں۔
قزاقستان میں 2900مساجد اور 175رجسٹرڈ چرچ موجود ہیں یہ ملک قدرتی ذخائر سے مالامال ہے جن میں قدرتی گیس ،تیل،قیمتی دھاتوں،کیمیکلز کے علاوہ اہم برآمدات میں خام لوہا،اجناس،گندم،اوون،گوشت،سیب اور کوئلہ شامل ہے۔ آبادی میں خواتین کی کثرت ہے جو ملکی تجارت کے 49%حصے میں شامل ہیں۔ حکومت اسی باعث تسلسل سے خواتین کیلئے فلاحی منصوبوں کا اہتمام کرتی ہے۔ 3291سکول قزاق ،2406روسی اور 2138مشترک زبانوں کی تدریس پر مشتمل ہیں غیر سرکاری تعلیم کا رحجان کم ہے۔ تعلیم،صحت اور تحفظ تمام شہریوں کو بلا امتیاز مفت حاصل ہے۔
1997تک اہم تجارتی مرکز الماتی شہر دارالحکومت رہا۔ پھر کئی ہزار کلومیٹر دور اکمولا کو جو آستانا کہلایا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ قزاق جنگ آزادی کے غازی اور سابق صدر نور سلطان نذر بائیووف کی ملک کو مختصر مدت میں ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں لانے کی خدمات کا صلہ دارالحکومت کا نام تبدیل کر کے دیا گیا۔ اب نور سلطان نذر بائیووف دارالحکومت “نور سلطان”میں رہائش پذیر ہیں جب کہ قاسم جومارت توکالووف صدارت کے منصب پر فائز ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
مصر میں عورت کی خود مختاری کا سفر
تاریخ عالم کی عظیم نا انصافیاں اور عدالتی فیصلے.
قزاقستان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس کی جغرافیائی اہمیّت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ملک یورپ کو چین اور یورپ کو جنوبی ایشیا تک راستا فراہم کرتا ہے۔ ذرائع مدورفت کے لیے ریل،ہائی وے،ائیر وے اور سمندری راستے شامل ہیں صرف سمندری راستوں کے استعمال سے ملکی معیشت میں 11%جی ڈی پی فراہم ہوتا ہے
ڈپٹی چیئرمین قزاق ٹرانسپورٹ کمیٹی قاسم تلی پووف نے بتایا کہ 5سالوں میں35بلین ڈالرز ٹرانسپورٹ کی مد میں سرمایہ کاری ہوئی۔ ریلوے میں ٹرن آؤٹ 52.2%رہا۔ یورپ اور ایشیا میں ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ کی مد میں یورپ اور ایشیا کے مابین حکومت نے 1.6بلین ڈالرز سے 2500کلومیٹر تک جدید ریلوے نظام کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح 498پروازیں یورپ،روس،جنوبی و مشرقی ایشیا اور وسط ایشیا سمیت 28ممالک میں روزانہ رواں ہیں۔ 2022میں ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد 4.5ملین رہی جو 2021 کی نسبت 9گنا زاید ہےاس خطے کی جغرافیائی اہمیّت کے باعث 2022میں امریکا نے بھی باہمی تعلقات پر زور دیتے ہوئے اوپن سکائی معاہدے کے تحت براہِ راست پروازیں شروع کر دیں۔
قزاقستان کی 70%زمین چین سے یورپ اور دیگر ممالک میں ٹرانزٹ ٹریفک کے لیے مختص ہے5ریلوے اور 6بین الاقوامی آٹو موبائل راستے چین اور قزاقستان کے مابین فعال ہیں اور اندازے کے مطابق محض دس سے پندرہ روز میں مصنوعات مقررہ علاقوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں جب کہ 3.5بلین ڈالرز کے 51 بڑے منصوبے زیرِ التوا ہیں کیسپیئن سمندر کی تین بندرگاہیں اس کے علاوہ متحرک ہیں۔
رہا سوال پاکستان اور قزاقستان کے مابین تعلقات کا تو یہ کڑیاں 6ہزار سال قبل ظہیر الدین بابر ،منگو خان اور ہلاکو خان کے پوتے عبد اللہ خان کی لاہور تک رسائی کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ حوادثِ زمانہ اور استعماری طاقتوں کے جبر و استبداد کے زیر نگیں وسط ایشیائی اقوام محکوم رہیں لیکن آزادی ملتے ہی انھوں نے اپنے گم گشتہ تشخص کی بحالی پر زور دیا۔ قزاقستان نے 90کی دہائی میں آزادی کے بعد معاشی بدحالی کے خاتمے کی خاطر غیر ملکیوں کے لیے تجارت و سیاحت کے در وا کر دئیے۔ اسی دور میں پاکستانیوں نے بھی اس علاقے کا رخ کیا تجارتی روابط کاآغاز ہوا تو پی آئی اے کی براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں۔ تابانی گروپ نے پاکستانی مصنوعات کے معیار اور ارزاں قیمتوں سے شہرتِ دوام حاصل کر لی۔ دونوں ممالک کے سیاح ہر دو ملکوں میں دیکھے جانے لگے پھر روایتی بدعنوانی سے پی آئی اے کا کاروبار ٹھپ ہوا۔ ہم وطنوں کی غیر اخلاقی حرکات نے قزاق قوم کو بدگمان کیا۔ دہشت گردی کے سامنے کے بعد داخلہ و خارجی پالیسی بدلی پاکستان کی ترجیحات تبدیل ہوئیں قزاقستان میں سفارتی خلا کو ازلی دشمن بھارت نے مضبوط سفارت کاری سے پر کیا اور ہم ان سے کوسوں دور ہو گئے۔
2004 میں الفارابی یونیورسٹی قزاقستان نےپاکستانی اسکالر کو اردو زبان و ادب اور پاکستانیت سے روشناس کرانے کی دعوت دی۔ اس تعیناتی میں اڑھائی برس تاخیر کے باعث موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ سفارت خانہ پاکستان الماتی میں تعینات دفاعی اتاشی برگیڈیئر مظہر جمیل کی تگ و دو رنگ لائی۔ ابلائی خان یونیورسٹی برائے لسانیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ الماتی میں بار دگر پاکستان کو موقع دیا گیا اور سخت مراحل طے کرتے پاکستانی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر کو 2006میں تعیناتی ملی۔ 2007میں نیشنل لائبریری قزاقستان میں پاکستان مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا تین برس کی مسلسل محنت کے بعد یونیورسٹی میں اردو کمرہء جماعت اور پاکستان مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن یہ سلسلہ2010میں ڈاکٹر رؤف امیر کی وفات کے بعد منقطع ہو گیا۔
2021 کے بعد پاکستان اور قزاقستان کے مابین تعلقات کی بحالی کا کام پھر سے شروع ہوا۔ قزاق سفارت خانے اسلام آباد میں ایک مخلص،متحرک اور محنتی سفیر قستافن ژرجان تعینات ہوئے جن کی کاوشوں کے نتیجے میں باہمی تعلقات دوبارہ بحال ہوئے۔ وہ تجارت اور سیاحت کے فروغ کے لیے پاکستانی وزرا ،افسران اور کھلاڑیوں سے مسلسل ملاقاتیں کرتے ہیں۔ کانفرنسوں ،نمائشوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی دوروں پر رہتے ہیں۔ نور سلطان قزاقستان کے سفارت خانے میں تعینات اور حال ہی میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر سجاد احمد نے بھی باہمی تعلقات استوار کرنے میں مکمل تعاون کیا۔ یوں پاکستان قزاقستان ،چین اور کرغزستان کے مابین گوادر پورٹ کے حوالے سے ایک ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدہ QTTAطے پا گیا ہے۔
گذشتہ برس الماتی میں ہونے والی Made in Pakistan نمائش میں پاکستانی مصنوعات کوخوب پذیرائی ملی اور مارچ 2023میں دونوں ممالک کے مابین براہِ راست پروازیں شروع کی جا چکی ہیں۔ حکومت قزاقستان اپنے دارالحکومت میں ثقافتی تعمیر نو کی لیے 2023 میں بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے اور پاکستان کو خاص مہمان سمجھتی ہے۔ اسی باعث صدر قزاقستان قاسم جومارت توکالووف کی اس سال پاکستان آمد متوقع ہے۔
راقمہ نے اپنے پانچ سالہ قیام قزاقستان میں تجزیہ کیا کہ یہ قوم باہمی تعلقات کی بنیاد زبان،ادب اور ثقافت پر رکھتی ہے۔ تبھی تجارتی روابط استوار کیے جاتے ہیں سفارت خانہ قزاقستان اسلام آباد نے قزاقی زبان سیکھنے کے لیے مفت آن لائن تعلیم بذریعہ روسی،انگریزی اور فارسی کا اجرا کر دیا ہے۔ دیکھیے پاکستان کب پیش قدمی کرتا ہے۔ حال ہی میں اکادمی ادبیات کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے سفیر قزاقستان قستافن ژرجان کے ساتھ باہمی ملاقاتیں کیں جو پاک قزاق دوستی کی جانب خوش آئند قدم ہے۔
میری جذباتی وابستگی اپنی جگہ لیکن پاکستان کی خوشحالی اور بحالی کے لیے قزاقستان سے بہتر کوئی دوست ملک نہیں ہو سکتا۔