اس وقت یورپ اسلام فوبیا میں خطرناک حد تک مبتلا ہوچکا ہے۔امریکہ اور یورپ کی سفید آبادی یہ سمجھنے لگی ہے کہ
مسلمانوں کی مغربی دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اسلام کا تیزی سے پھیلاو انھیں اقلیت میں بدل سکتی ہے۔اسلام مغرب کا سب سے بڑا مذہب بن سکتا ہے۔لہذا اسی ضمن میں مغرب میں ایسے لوگوں کی اکثریت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے،مسلمانوں کے اسلامی شعائر کا وقتا فوقتا تمسخر اڑانا،حرمت رسول پہ حملے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔اب چند سالوں سے ان واقعات میں شدت آئی ہے۔۔
ابھی کچھ عرصہ قبل فرانس میں ایک اسکول ٹیچر نے اظہار آزادی رائے کے نام پر بھری کلاس میں گستاخانہ خاکے دکھائے۔مسلمان طالب علموں کے منع کرنے کے باوجود بھی جب یہ استاد اپنی حرکت سے باز نہ آیا تو ایک مسلمان طالب علم نے اسے سرراہ قتل کردیا۔
فرانس میں اس ٹیچر کے قتل کا ردعمل شدید تھا جس کا تعین اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ فرانس کی پارلیمنٹ میں اس ٹیچر کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس ٹیچر کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے سے متعلق مضمون پڑھاتا تھا۔اس ٹیچر کے ساتھ ہمدردی کرنے کے لیے فرانس کی عمارتوں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کردیے گئے۔پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا۔۔فرانس کے صدر نے اس مذموم کام کی مذمت کرنے سے انکار کردیا جو کہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ مغرب میں اسلام سے نفرت کا رویہ اتنا شدت پکڑ چکا ہے کہ اب اسکی لپیٹ میں حکومتیں بھی آچکی ہیں۔۔
پاکستان میں فرانس کی حکومت کے اس اقدام پر تحریک لبیک کی جانب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور وہ جلد ہی پرتشدد احتجاج کی صورت اختیار کرگئے۔اس موقعہ پر حکومت اور احتجاجی تنظیم کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت حکومت پاکستان فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے ایک قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔۔12 اپریل کی شام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحریک لبیک کے سربراہ کو گرفتار کرلیا جس کے بعد پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔متعدد پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور 500 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔حکومت نے تحریک لبیک کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دے دیا۔اس دوران چوک یتیم خانہ کے پاس پولیس تھانہ پہ حملہ کرکے اسے یرغمال بنا لیا گیا۔بہرحال حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات ہوئےجو کامیاب رہے جس میں دونوں فریقین کی جانب سے لچک دکھائی گئی جو کہ ایک اچھا اقدام تھا۔بالاخر ایک پرائیوٹ ممبر کے ذریعے حکومت نے قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے ایک قرارداد جمع کروادی۔۔
مغربی دنیا یہ بنیادی نکتہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان گستاخی کے عمل کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرسکتے اور حرمت رسول پہ حملہ مسلمانوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں روک سکتا۔جب مغرب کی طرف سے ایسی مزموم کوشش کی جاتی ہے تو تمام مسلمانوں میں غصہ کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے نتیجا تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پہ اکھٹے ہو کر احتجاج کرتے ہیں۔اور عموما یہ احتجاج اتنا شدید ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی املاک کو تباہ کردیتے ہیں،کسی تاجر کی دکان کو جلا کر اس سے عمر بھر کی کمائی کا ذریعہ چھین لیا جاتا ہے تو کبھی کسی رکشے والے کا رکشہ جلا کر اس سے اس کی روزی کمانے کا زریعہ چھین لیا جاتا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین میں مڈبھیڑ ہوتی ہے۔عمومی طور پر مسلمان ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے جو توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن یہی مناظر جب مغرب اپنے ٹی وی اسکرین پر دیکھتی ہے تو ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کا تصور انتہا پسندانہ کے طور پر قائم ہوتا ہے۔مسلمانوں کو عدم برداشت ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔
حالیہ تحریک لبیک کے مظاہروں نے اگر عمران خان کے لیے یہ سوال کھڑا کیا تھا کہ حکومت نے ٹی ایل پی سے معاہدہ ہونے کے باوجود اتنے ماہ تک قومی اسمبلی میں قرارداد کیوں جمع نہیں کروائی؟اگر حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ فرانسیسی سفیر نکالنے پر پاکستان کو FATF کے اجلاس میں سخت ترین رویے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ فرانس کی پوزیشن بہرحال مضبوط ہے،تو حکومت نے یہ معاہدہ کیا ہی کیوں تھا؟وہیں پہ ایک سوال ٹی ایل پی کے لیے بھی کھڑا ہوتا ہے کہ جائز مطالبات منوانے کا یہ کونسا طریقہ ہے جس میں نقصان اپنوں کا ہی ہو؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جذبات کو مجروح دشمن کریں گستاخی دشمن کریں لیکن نقصان ہم اووروں کو پہنچائیں؟
بہرحال تحریک لبیک کا ردعمل ایک طرف لیکن مغرب کو اپنا طرز عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے تاریخ میں بھی کئی بار پرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد اس لیے وجود میں آیا تھا کہ اب دنیا کو مزید جنگوں سے بچایا جائے۔اور پرامن مذاکرات کے ذریعہ مسائل کو حل کیا جائے۔اگرچہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا ابھی تک حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی قابلیت اور صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔عمران خان اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ مسلمان اپنے نبی کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔
اقوام متحدہ کو اس سنگین مسئلہ کی نوعیت کا ادراک کرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے قوانین وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔گستاخی کے مزموم عمل کو اظہار آزادی رائے کے درجے سے ہٹا کر ایک جرم کے درجے پر لایا جائے اور اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے سزا بھی رکھی جائے کیونکہ دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے جذبات کو چھلنی کرنا،انہیں تکلیف دینا کہیں سے بھی آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتا۔اقوام متحدہ کو ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔