پنجاب اسمبلی میں جہانگیر ترین گروپ کے باقاعدہ قیام کو تحریک انصاف اور خاص طور پر عمران خان کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ خطرہ بھی ہے لیکن یہ دباؤ کا ایک حربہ جس کا فوری ہدف مسلم لیگ ن ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کا اسٹیبلشمنٹ سے صلح والا بیان یاد کیجیے۔ اگرچہ اس کی تردید ہوگئی اور تھوڑی ترجمان صاحب کی جھاڑ پھونک بھی ہو گئی لیکن اس کا بھی ایک پس منظر تھا، سیاست کے کھیل میں دکھاوے اور جھکاوے کی اہمیت غیر معمولی ہوتی ہے، اس طرح کے بیانات ایسے کاموں کے لیے دیے جاتے ہیں۔
اصل کھیل جہانگیر ترین کے گروپ کا ہے۔ یہ تو طے ہو چکا ہے کہ ایک صفحے کا اب کوئی وجود نہیں رہا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ عمران خان کی نااہلی اور خراب کارکردگی کی وجہ وہی سب سے زیادہ مایوس ہونے ہیں جنھیں ان سے توقعات زیادہ تھیں یعنی ان کے سرپرست۔ اب سرپرست یہ چاہتے ہیں کہ ان سے جان چھڑائی جائے اور اس عمل کا آغاز پنجاب سے کیاجائے۔
سرپرست چاہتے ہیں کہ عثمان بزدار کی رخصتی کے لیے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی پارلیمانی طاقت سے استفادہ کیا جائے لیکن ن لیگ اس پر آمادہ نہیں ہے اور اس نے ٹھینگا دکھا دیا ہے۔
ن لیگ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس قسم کی کسی نمائشی تبدیلی کا حصہ نہیں بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں؛ میں نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا تھا کہ کیا اس کھیل میں اس کی شرکت کا کوئی امکان ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ہم انتخابات سے سوا کسی اور آپشن کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
میری اطلاع یہ ہے کہ ن لیگ چاہتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل ایک ایسا آئینی پیکج پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے جو انتخابی اور سیاسی عمل میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کا راستہ بند کر دے۔ یہ مطالبہ چوں کہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے ترین گروپ کی طاقت اور ارکان کی تعداد میں بتدریج اضافے کے ذریعے اسے پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر آپ نہ مانے تو یہ کام آپ کے بغیر بھی ہو سکتا ہے لیکن ن لیگ ابھی تک اس چنگل میں پھنسنے پر آمادہ نہیں ہے اور اس نے لال جھنڈی دکھا دی ہے۔