سوال کیا جارہا ہے کہ کراچی میں حزب اختلاف کا جلسہ کیسا ہے؟ اس سوال کا جواب تو بہت سیدھا ہے کہ جو فرق گوجرانولہ اور کراچی کی ابادی میں ہے، وہی فرق اس جلسے میں بھی ہے۔ اچھا ہوا کہ جناب شبلی فراز یا ان کے کسی ساتھی نے اس بار اپوزیشن کو چیلنج نہیں دیا ورنہ حزب اختلاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو ایک اور ہدف مل جاتا اور مزے مزے کے تبصرے سننے کو ملتے۔
کراچی کے اس جلسے کو حکومت کے ایک ترجمان فیاض الحسن چوہان نے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے جو اختلاف کی طرف جاتا ہے۔ اختلاف اس بات کا پیپلز پارٹی نے میاں محمد نواز شریف کے خطاب کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بعد ٹوٹ پھوٹ۔ چوہان صاحب کے ذرائع اطلاعات بہت زیادہ ہوں گے لیکن اگر میاں صاحب کا خطاب نہیں ہوتا تو جلسے سے قبل کیا اعلان کیا گیا تھا کہ وہ خطاب کریں گے؟
پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ بنائے اختلاف ہے تو مریم جلسے میں کیوں ہیں اور اس سے قبل بلاول ہاؤس کے اجلاس میں وہ کیسے شریک رہیں؟
میاں نواز شریف نے گوجرانولہ میں جس پچ پر خطاب کیا تھا، صرف دو دن کے بعد اس سے بڑی پچ پر جا کر خطاب ویسے بھی بہت اہم فیصلہ ہے۔ ایسا بہت سوچ سمجھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ میاں صاحب اور ان کے ساتھی ہی کر سکتے ہیں۔
ویسے گوجرانولہ کے جلسے کا عمران خان اور ان کے وزرا کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے، اس کے بعد حزب اختلاف اور خاص طور پر میاں صاحب اس کا جائزہ بھی لے رہے ہوں گے اور لطف بھی لہذا اگر وہ چند دن خاموش رہتے ہیں تو یہ فطری ہو گا۔