عمل کی شدت کا اندازہ رد عمل ہوتا ہے، اگرچہ 11 جماعتی اتحاد کے باوجود عام تاثر ہے کہ اپوزیشن کچھ کر دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر رد عمل بڑا خوفناک ہے۔ ایوان اقتدار میں جس طرح کی ہلچل ہے وہ کچھ اور ہی داستان بیان کر رہی ہے۔ اتنا شور تو اپوزیشن نہیں مچا رہی جتنا وزرا، لشکر ترجمان، وزیر اعلی، صوبائی وزرا، جید رہنمائوں کی فوج ظفر موج، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ چوٹ کاری ہے۔
ٹائیگر فورس سے خطاب کرتے ہوئے جو لب و لہجہ عمران خان نے اختیار کیا وہ کسی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا، جس طرح منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر دھواں دھار بھڑکیں لگائیں یہ تو واضح ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا مہنگا نہیں بلکہ بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نواز شریف جس طرح پرتقدس شخصیات پر تبرہ کر رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔ چلیں پاکستان میں تو انہیں کرپٹ، ڈاکو، لٹیرہ اور غدار قرار دیگر عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ پوری دنیا انہیں تین بار کا وزیر اعظم مانتی ہے اور ظاہر ہے کہ ان کی بات کو وزن دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی وفاداری سے غداری تک ایک طویل تاریخ ہے اور دل ہلا دینے والی تفصیلات، ایک لمبی بحث، جس میں ریاست اور عوام کہیں نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور شخصیات کی پسند و ناپسند پر ہونیوالی نوٹنکی ضرور ہے۔ جانے کیوں اس تقریب میں وزیر اعظم کنٹینر پر کھڑے نظر آئے، وہی ہذیانی کیفیت، ہر حال میں نواز شریف کو واپس لائونگا، یہ ڈرامہ کب تک چلے گا بھائی، سب جانتے ہیں کہ برطانیہ سے کسی کو قانونی طور پر واپس لانا آپ سمیت کسی کے بس میں نہیں، الطاف حسین سے اسحاق ڈار تک، تو اب یہ کسے سنا رہے ہیں، اور اب نواز شریف کی حالیہ تقاریر کے بعد تو قطعی ممکن نہیں ہے۔ ایک عجب بے بسی نظر آتی ہے تحریک انصاف کی صفوں میں، نومسلموں جیسا جوش و خروش تو اب تک قائم ہے مگر لب و لہجہ اور باڈی لینگوئج ساتھ نہیں دے رہی۔
وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ جنرل ضیا کے بوٹ پالش کر کے اور جنرل جیلانی کے گھر سریا لگا کر وزیر اعظم بنا، سمجھنا یہ ہے کہ یہ فوج پر تنقید ہے یا تعریف، کیا آپ بحثیت وزیر اعظم سیاست میں فوج کی شرکت کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ حضور ویسے یہ الزام تو آپ پر بھی ہے، چلیں الزام کو الزام ہی جانیں، مگر شیخ رشید حیسے ثقہ راوی کی گواہی کو تو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا، جو فرماتے ہیں کہ تمام سیاستدان گیٹ چار کی پیداوار ہیں، بھلا اس معاملے میں شیخ رشید سے زیادہ تجربہ کار کون ہے، آپ کو یاد نہیں تو ذرا ماضی میں جائیں ہمارے بزرگ سیاستدان نے گزشتہ 30 سالوں سے ہر آرمی چیف کو پاکستان کی آخری امید اور تاریخ کا سب سے زیادہ پروفیشنل سولجر قرار دیا ہے۔
جب منصور بن حلاج کو پھانسی گھاٹ لیجایا جا رہا تھا تو دونوں جانب کھڑے لوگ پتھر مار رہے تھے، انالحق کہنے والا منصور سر اٹھائے مسکراتا موت کی جانب جا رہا تھا، مگر جب شبلی نے پتھروں کی بارش میں پھول پھینک مارا تو منصور چیخ پڑا، شبلی تو بھی، اپنوں کی چوٹ روح کو زخمی کر جاتی ہے۔ خدانخواستہ یہ نہ سمجھیے گا کہ نواز شریف انقلابی بن چکے ہیں، لاحول ولا قوۃ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل جیلانی کی آشیر باد سے مرد مومن مرد حق جنرل ضیاالحق کی انگلی تھام کر سیاسی میدان میں اترنے والے نواز شریف گزشتہ 30 سال اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ رہے ہیں۔ اب یہ وفادار، غدار بن چکا ہے، خدا کرے میں غلط ہوں مگر اب بھی سارا انقلاب ایک ڈیل کی مار ہے۔ دوسری جانب احوال یہ ہے کہ اپنوں کی چوٹ روح گھائل کر رہی ہے، گھر یا بھیدی لنکا ڈھاَئے تو پھر کون بچائے۔ وزیر اعظم کی فرمان مان لیا جائے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کا لاڈلا ستم ڈھا رہا ہے، تو جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کون تھے بھائی؟
شریف اور زرداری، ثبوت ملیں یا نہ ملیں، دولت میں ہولناک تیزی کرپشن کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ نواز شریف تو خیر اپنوں میں سے تھے، پیپلز پارٹی روایتی طور پر فوج کی ناپسندیدہ جماعت رہی ہے، مگر زرداری صاحب نے مفاہمت کی گیدڑ سنگھی استعمال کر کے سب کو خوش رکھا، ایکسٹینشن پر ایکسٹنشن، خود بھی خوش رہے اور دوسرے بھی خوش رہے اب اس خوشی کی تفصیلات میں نہ جائیں، حد تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی خوش و خرم رہی، سوال یہ ہے کہ جب یہ لوٹ مار کھلے عام جاری تھی تو اسٹیبلشمنٹ کی حب الوطنی کہاں تھی، اب جب یہ رہنما اپوزیشن میں آئے تو حب الوطنی کیوں جاگ اٹھی؟ یہی ہمارا اصل المیہ ہے، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، ادارے سب فیصلے اپنے لئے کرتے ہیں، ریاست اور عوام، دونوں یتیم ہیں، مملکت پاکستان اور بائیس کروڑ عوام کیلئے کوئی نہیں سوچتا۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ہر جانیوالا وزیر اعظم ہاتھ بندھے ہونے کی شکایت کرتا نظر آئیگا، کوئی حیرت نہیں ہو گی کہ آپ بھی تین سال بعد یہی شکایت کرتے نظر آئیں، آج اپوزیشن کرپٹ ہے، اس پر بھی کوئی حیرت نہیں ہو گی کہ تین سال بعد یہی نیب آپ کو بھنبھوڑ رہی ہو اور آپ اسٹیبلشمنٹ کو کوس رہے ہوں، چونکہ پاکستان میں ایبڈو سے لیکر نیب تک پارسا صرف حکومت ہوتی ہے۔ یہ کیسا نظام ہے بھائی؟
بہرحال صورتحال کے اصل ذمہ دار سیاستدان ہیں جو اب تک بلوغت تک نہ پہنچ سکے، ہر سیاستدان کہیں نہ کہیں گیٹ چار پر نظر ضرور آتا ہے۔ ہم ترکی کی بہت بات کرتے ہیں کمال اتاترک اور عصمت انونو جیسے جنرنیلوں نے فوج کو اقتدار کا لازمی جز بنایا، شب خون، بغاوتیں، آمریت ایک طویل تاریخ ہے۔ ایک سویلین وزیر اعظم عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی، ایک کو ملک بدر کیا گیا۔ مستقل قریب تک 1988 میں وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، اس وقت طیب اردووان استنبول کے میئر تھے انکو بھی معزول کیا گیا۔ مگر جولائی 2016 میں جب ترک فوج نے غاصبانہ کارروائی کو تو دنیا نے دیکھا کہ ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے اور طاقتور فوج گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔ وجہ صرف ایک تھی، ترک سیاستدانوں نے عوامی سیاست اپنائی، اسی عوام نے جمہوریت کو بچایا، عوام ہی ملک کے اصل مالک ہوتے ہیں، ادارے یا سیاستدان نہیں۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت میں جمہور نہیں ہوتے، سیاستدانوں کا عوام سے رابطہ نہایت کمزور اور وقتی ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال ہی دیکھ لیں، اپوزیشن کی پوری کوشش ہے کہ حکومت گرا دی جائے، حکومت کی بھرپور خواہش ہے کہ اقتدار سلامت رہے، عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مہنگائی، اس کی فکر کسی کو نہیں، حکومت ہو اپوزیشن یا نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور یہ لوگ اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کیا اسے ہائبرڈ حکومت کہتے ہیں بھائی؟