حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلے سامنے آچکے۔ کانفرنس کی ابتدا میں میاں نواز شریف کے خطاب سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ قریباً دو برس تک خاموشی اختیار کیے رکھنے والے سابق وزیراعظم کس انداز میں سوچ رہے ہیں اور ان کے دل میں کیا طوفان اٹھ رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ردعمل کیا ہے؟
اے پی سی، نیز نواز شریف کی تقریر پر اب تک تین طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں، اول ان کے وزرا اور معاونین خصوصی کے جن کی پرواز خیال کرپشن، بیماری اور این آر او سے آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسرا ردعمل شیخ رشید کا ہے۔
شیخ رشید جملے بازی اور ضلع جگت کے بادشاہ ہیں لیکن اس موضوع پر انھوں نے بے انتہا سنجیدگی کے ساتھ تقریباً اعلان کر دینے انداز میں واضح کیا کہ اے پی سی والی تقریر کے بعد پاکستان کے دروازے میاں صاحب پر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں اور وہ انھیں برطانیہ میں سیاسی پناہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
شیخ رشید کہا کرتے ہیں کہ اگر کسی کو پاکستان کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کا ذہن سمجھنا ہو تو وہ ان کے ساتھ رابطہ کرتا ہے۔ کیا شیخ صاحب کا یہ انکشاف بھی اسی نوعیت کا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ نواز شریف کے دل میں کوئی ایسی خواہش انگڑائی لینے لگے کہ وہ بھی ایک روز کسی خصوصی پرواز کے ذریعے اسلام آباد میں اتریں گے جیسے سردیوں کی ایک دوپہر فرانس سے آنے والا ایک طیارہ تہران میں اترا تھا۔ بہرحال نواز شریف کیا سوچتے ہیں؟ وہ جانیں لیکن اگر اس قسم کی جلاوطنی شیخ صاحب کے ذہن میں ہے تو یہ کسی کے لیے بھی اچھی خبر نہیں۔
نواز شریف کے خطاب پر ایک تبصرہ مسلم۔لیگ ہی کے ایک پرانے ساتھی ایاز امیر نے بھی کیا ہے۔ان کے مطابق یہ تقریر سننے کے بعد موجودہ حکمرانوں کے لانے والوں نے ضرور سوچا ہو گا کہ مسئلہ نواز شریف سے تھا یا مسلم لیگ سے؟ ان کا اندازہ ہے کہ اب کچھ ایسا ہو گا جس کے نتیجے میں نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ “ان” ہو جائے گی۔ یہی پہلے بھی ہونا چاہئے تھا۔
سچ یہ ہے کہ اے پی سی اور نواز شریف کی تقریر کے بعد بہت سارے شور شرابے کے باوجود سناٹے کی سی کیفیت ہے۔ اللہ کرے یہ سناٹا کسی طوفان سے پہلے والا سناٹا ثابت نہ ہو۔
پس تحریر
پیر کو وزیر اعظم اور شیخ رشید دونوں نے بات کی ہے اور نواز شریف کی تقریر کو بھارت کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اگر خیالات کی یہ یک جائی محض اتفاق نہیں ہے تو لگتا ہے کہ بات اسی طرف جارہی ہے جس طرف شیخ رشید نے اشارہ کیا ہے۔