• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

یتیموں کا دن

آوازہ: فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
May 11, 2020
in محشر خیال
0
فارق عادل
112
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

کچرے کے ایک ڈھیر کے پاس کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ آخر اس کہانی کا سرا کہاں سے ملے؟سوال یہ درپیش تھا کہ بڑے بڑے شہروں کے بیچ اور اطراف میں یہ جو کچرے کے عظیم الشان ڈھیرپڑے رہتے ہیں، ان پر بھی ایک مخلوق پلتی ہے، کیااس مخلوق سے ہمارا بھی کوئی تعلق واسطہ ہے اور اگر ہے تو ہماری زندگیوں پر ان کے اثرات کی نوعیت کیا ہے؟یہی سوچتے ہوئے کہانی کا سرا مل گیا اور معلوم ہوا کہ گندگی کے ان ڈھیروں پر پلنے والی کروڑوں گاؤں بھینسوں کے دودھ اور بکرے بکریوں کے گوشت نے معاشرے کو جو تحفے دیے ہیں، ان میں یرقان اور اس کی ترقی یافتہ شکلیں،معدے کے امراض ، آنکھوں کی کچھ نئی بیماریاں اور جانے کیا کیا کچھ شامل ہے۔یہ فضلہ جو ہمارے گھروں سے نکل کر فضا کو متعفن کر دتا ہے، اس پر صرف یہ بے زبان ہی نہیں پلتے بلکہ کچھ دوسرے بھی پلتے ہیں، قدرت کے کسی نامعلوم فیصلے نے انھیں دوسری طرف نہ لا کھڑا کیا ہوتا تو کیا خبر وہ لوگ وہاں نہ ہوتے، اُن کی جگہ ہمارے جیسے خوش حال لوگ ہوتے، بس، اسی خیال نے میری سٹی گم کر دی۔
وہ دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ میں ایسی چمک پیدا ہو چکی تھی جس میں سراب ہوتا ہے ۔ اس کیفیت میں آنکھیں درست دیکھ پاتی ہیں اور نہ کیمرہ فوکس ہو سکتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب گلی محلوں میں دکانوں کے شٹر گرا دیے جاتے ہیں، مائیں بچوں کو گھروں میں قید کر لیتی ہیں اور بڑے بوڑھے بستر پر لیٹ کر قیلولے کے بہانے اپنی جوانی سہانی کی یادوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ان کچرا گھروں کی رونق میں اضافے کا وقت بھی یہی ہے۔اپنے اپنے راستوں کو کبھی نہ بھولنے والے مویشیوں کے گلے سست رفتاری سے چلتے اور پاؤں کے گھونگھرو بجاتے یہاں آ ن موجود ہوتے ہیں۔ ان جان داروں کے بیچ ایک مخلوق اور بھی دکھائی دیتی جو ہماری طرح ہاتھ پاؤں بھی رکھتی ہے اور منہ میں زبان بھی۔یہ مخلوق بھی دوسرے جان داروں کی طرح رزق کے ان خزانوں سے اپنے جینے کا سامان پاتی ہے۔کاغذوں کے پلندے، گتے کے ڈبے، دھات کے ٹکڑے یا ایسی ہی بہت سی دیگر چیزیں۔اس روز میں نے جانا کہ ہماری اس معیشت کے کتنے رنگ اور کتنے پہلو ہیں، ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی کہیں آگے پیچھے ہو جائے تو زندگی کی رفتار ہی بگڑ کر رہ جائے۔ وہ ایک سرخ و سفید لڑکا تھا جس نے ایک بڑا ساجھولا کاندھے پر ڈال رکھا تھا اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ گندگی کوکھدیڑ کھدیڑ کر اپنی پسند کی چیزیں نکال رہا تھا۔گاؤں بھینسوں والی کہانی میں میری دلچسپی کم ہوگئی اور میری توجہ اس بچے پر مرکوز ہوگئی۔اس ڈھیر کے گرد گھومتے ہوئے میں ایک ایسی جگہ پر جا کھڑا ہوا جہاں وہ آسانی کے ساتھ مجھے دیکھ سکے جیسے ہی ہماری نگاہیں چار ہوئیں، میں نے اِسے بلایا تو اپنی نہایت بلند اور کراری آواز میں اُس نے جواب دیا، ”خو، ابھی ٹھیرو“ اور میں ٹھہر گیا۔
وہ ایک افغان بچہ تھا جو پاکستان میں ہی پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔وہ (کراچی کی ایک بستی) صفورا گوٹھ کے پیچھے کسی جھونپڑی میں اپنی ماں کے ساتھ ر ہتا تھا۔ اس کی ماں بھی ایک محنت کش تھی جو ارد گرد کے علاقوں میں چھوٹے موٹے کام کر کے جینے کا سامان کر لیا کرتی تھی۔ وہ میرے ساتھ بات ضرور کررہا تھا لیکن اس کی نگاہیں اپنے کاروبار یعنی کچرے کے ڈھیرپر تھیں اور وہ شاید اس ڈھیر کے ان گوشوں کو آنکھوں ہی آنکھوں نے نشان زد کررہا تھاجن کی تسخیر اسے ابھی کرنی تھی۔کچھ دیر میں نے خاموشی اختیار کی ،اس دوران میں وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی”چراہ گاہ“ کا جائزہ لے چکا تو میں نے اس کے والد کے بارے میں سوال کیا۔”خو، وہ تو نہیں ہے“۔ اُس نے روا روی میں جواب دیا۔”تو وہ کہاں ہے؟“ میں نے پوچھا تو اسی لاتعلقی کے ساتھ اُ س نے اپنا پرانا جواب دہرا دیا۔اپنے سوال کو ذہن میں محفوظ رکھتے ہوئے میں نے اس سے اِدھر اُدھر کی کچھ دوسری باتیں شروع کر دیں۔ معلوم ہوا کہ شہر کے مضافات میں بہت سے ایسے مراکزہوتے ہیں جہاں یہ بچے ان کچرا گھروں سے چنی گئی اشیا کو جمع کراتے ہیں۔ ان مراکز پر ایک مخصوص وقت میں کچھ ریڑھیاں آتی ہیں جو طے شدہ معاوضہ دے کر یہ سب کچھ اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ یہ ریڑھیاں کچھ اور مراکز پر یہ چیزیں جمع کراتی ہیں ، وہاں سے انھیں پروسس کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ۔ خیر ، یہ قصہ طولانی ہے، میری اصل دلچسپی تو اس بچے میں تھی۔ گپ شپ سے اس کا اعتماد بحال ہوگیا اور اس نے بتایا کہ اس کا باپ افغانستان میں ہوتا تھا اور جنگ کیاکرتاتھا۔ ” تم اس سے کب ملے، وہ یہاں کبھی آیا؟ “وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس سے یکے بعد دیگرے کئی سوالات پوچھے ۔ پتہ چلا کہ یہ بچہ اپنے باپ سے کبھی نہیں ملا، وہ اپنے باپ کا نام تک نہیں جانتا اور اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کب ،کیسے اور کہاں مارا گیا نیزاس کا آگا پیچھا کیا ہے۔ بچے کے انکشافات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو بے بسی کے عالم میں ؛میں نے اِس سے سوال کیا کہ چائے پیو گے؟۔ ” خو، ام کسی سے کچھ نہیں لیتا“۔ اُس نے شاہانہ وقار کے ساتھ جواب دیا۔کسمپرسی کے اس عالم میں بھی اس کی غیرت جوان تھی اور وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا روا دار نہیں تھا۔ آفرین ہے، اس کی تربیت پر۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا اوروہاں سے اُٹھ آیا۔ آگے بڑھتے ہوئے میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ بچہ اپنی اطمینان بھری رفتار کے ساتھ ”کام“ کی طرف دوبارہ بڑھ رہاتھا۔
افغانستان کی جنگ کو ہم پاکستانیوں نے آئیڈیالایز بھی بہت کیا ہے اور ایک زمانے میں اس سے امیدیں بھی بڑی بڑی وابستہ کیے رکھی ہیں لیکن اس جنگ کا ایندھن بننے والو ں کے بارے میں کبھی نہ سوچا جس میں صرف جنگ جو ہی نہیں مارے گئے ، املاک ہی برباد نہیں ہوئیں بلکہ متاثرین کی بھی بہت بڑی تعداد پیدا ہوئی جیسے یہ بچہ۔اس بچے کی کہانی نے مجھے بہت دنوں تک بے چین رکھا لیکن جیسے ہوتاہے، یادیں پیچھے رہ جاتیں ہیں اور زندگی آگے بڑھ جاتی ہے، میری زندگی بھی آگے بڑھ گئی لیکن افغان جنگ، پاکستان میں اس کے اثرات نیز سیلابوں اور زلزلوں جیسی آفات نے اپنا کام کام جاری رکھا، لہٰذایتیموں کی آبادی میں اضافہ بھی جاری رہا۔ ملک میں پاکستان آرفن فورم کا قیام خیر کی جانب ایک بڑا قدم ہے اور یہ لوگ بہت بڑا اور نیک کام کررہے ہیں۔ ہماری پارلیمان نے 15رمضان کو یتیموں کا دن قرار دے دیا، یہ بھی بہت اچھی بات ہے ۔ اس سے معاشرہ بیدار ہو گا اور اہل خیر اپنا دست تعاون دراز کردیں گے لیکن کیا کبھی کسی کی نگاہ میں وہ یتیم بچے بھی آسکیں گے جو ڈھور ڈنگروں کی طرح کچرے کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں؟

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
Tags: افغانافغانستان کی جنگکچرا چننے والےکچرے کے ڈھیریتموں کا دنیتیم
Previous Post

غذائیت کے بحران کی دہلیز پر کھڑا ہمارا مستقبل

Next Post

آج سعادت حسن منٹو کی سال گرہ ہے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
آج سعادت حسن منٹو کی سال گرہ ہے

آج سعادت حسن منٹو کی سال گرہ ہے

محشر خیال

ازبک ٹرین
فاروق عادل کے سفر نامے

خواجہ سعد رفیق کی گرین لائن اور ازبک ٹرین

مریم نواز
محشر خیال

مریم نواز سے وابستہ اصل امید

عمران خان
محشر خیال

قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان

مولانا فضل الرحمان
محشر خیال

مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین

تبادلہ خیال

پرویز مشرف
تبادلہ خیال

مشرف جیسے کرداروں کی برائی کرنا قرآن سے ثابت ہے

وفاقی محتسب
تبادلہ خیال

وفاقی محتسب۔چا لیس سال کا سفر

پختون خوا میپ
تبادلہ خیال

پختونخوا میپ: ایک جماعت تین سربراہ

کراچی
تبادلہ خیال

کراچی: ٹوٹا کیسے، بچائیں کیسے؟

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions