اُس بچے کو دیکھا تو عید کا دن یاد آگیا۔ہمارے بچپن میں اس روز مائیں اپنے بچوں کو بوروکیڈ کی چمچماتی ہوئی سنہری شیروانی پہناتیں اور اسی کپڑے کی رام پوری ٹوپی جسے تہہ کردیں تو سمٹ کر جیب میں آجائے۔ اس بچے نے بھی کچھ ایسے کپڑے ہی پہن رکھے تھے، چمچماتے اور بھڑکیلے، تیل سے اس کے بال جمے ہوئے تھے اور اس کے جسم میں بجلیاں بھری تھیں۔ ماں پکڑ کر سیدھا بٹھاتی تو وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوتا، ماں اسے پھر پکڑتی اور برہمی سے اس کی ہتھیلیاں جوڑ کر دعا مانگنے کی ہدایت کرتی لیکن وہ پھدک کر اس ٹیلے کی طرف لپکتا جس پر سبز قالین منڈھاہے اور اس سے ذرا پیچھے میزبان رسالت مآب استراحت فرماتے ہیں۔ ماں کے چہرے پر حیا کی سرخی ، ذرا سی ہراسانی اور بہت سی پریشانی تھی۔ ہراسانی ایسی جسے بزرگوں کے رو برو آ کر نوجوان لڑکیاں محسوس کرتی ہیں اور پریشانی اس بات کی کہ اس کی اولاد کے کدکڑوں سے بزرگ کہیں بے آرام نہ ہو جائیں۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو اس طاقچے کے عین نیچے جس کے اندر میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کا نشان اور دیگر متبرکات ہیں، سمٹ کر بیٹھ گیا، میری ایک نگاہ اس بچے پر تھی اوردوسری آرام گاہ میزبان رسالت مآب پر۔ شاہد خان روضے کی طرف رخ کیے کھڑے تھے، ان کے ہاتھ میں قرآن تھا، آنکھیں اشک بارتھی اور وہ اسی حالت میں تیزی سے الوہی الفاظ دہرائے چلے جاتے تھے۔ معصوم صورت فضل کی صورت پر معصومیت پہلے سے بڑھ کر برسنے لگی تھی اور وہ حیرانی کے عالم میں دکھائی دیتا تھا لیکن وہ کہاں بیٹھا تھا، میرے پہلو میں، خان صاحب پیچھے کھڑا تھا یا اس چوکھٹ کے قریب جسے کبھی سرتاج میزباناں کے جسم یا لباس سے مس ہونے کا شرف ملا ہو گا، مجھے اس کا ہوش نہیں۔ یکایک یہ سارے چہرے معدوم ہونے لگے، میرے اپنے لوگ بھی اور اس حجرے کے سارے ذی روح بھی۔ پس، اسی لمحے یہ حجرہ نور کی لپیٹ میں آگیا اور اس میں صاحب حجرہ کی مہربان صورت ضو فشاں ہوئی۔ مسکراتے ہوئے دائیں بائیں نگاہ ڈالی تو گویا رحمت کی پھوار برس گئی، اسی مسکراہٹ میں ان کے لب لعلیں حرکت میں آئے، گویا کہتے ہوں، بچوں پر سختی نہ کیا کرو، میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا، نوجوان ماں جو شاید استنبول کی کسی نواحی بستی یا کسی گاؤں سے آئی ہوگی،اب سکون سے تھی، فضل کی معصومیت میں اب مسکراہٹ کی چمک بھی شامل ہو چکی تھی اور خان صاحب جو اب سیپارہ بند کر کے مہربان نگاہوں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے، کہنے لگے کہ اب اجازت لیں؟
یہ جمعے کی برکتیں تھی اور اس روایت کی جس کے تحت عید شبرات(شب برات)حتیٰ کہ جمعے کے روز بھی لوگ دور دراز سے کھنچے چلے آتے ہیں اور اپنے بڑوں، بزرگوں کی قدم بوسی کی سعادت حاصل حاصل کرتے ہیں۔ استنبول والے اس روز اپنی مصروفیات محدود کر کے ایوپ(Ayup) سلطان یعنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بار گاہ کا رخ کرتے ہیں، پہلے مسجد کا دامن بھرتا ہے پھر صحن، صحن کے بعد باہرکا وسیع پختہ میدان، ایک طرف خواتین ہوتی ہیں اور دوسری طرف مردوں کی بھیڑ جو سر جھکائے درود شریف کا ورد کرتے، جہاں جگہ ملتی ہے، سماتے چلے جاتے ہیں۔
حجرے میں بیٹھنے کی سعادت سے قبل ہم بھی اسی ہجوم میں تھے کہ لاؤڈ اسپیکر میں جان پڑ گئی اور ایک جانا پہچانا کلمہ کانوں میں پڑا۔ الصلاةوالسلام علیک یارسول اللہ۔ درود شریف کے یہ وہی مانوس الفاظ ہیں جو صبح و شام ہمارے کانوں میں بھی پڑتے ہیں مگر برا ہو اس تفرقے کا جس نے اس پاکیزہ ذکر کو متنازع بنا دیا ہے۔بس، یہی ذکر سنتے سنتے راہ بنتی گئی اور ہم روضے کے اندر داخل ہوگئے۔اس حجرے کادوسرا دروازہ صحن میں کھلتا ہے جس پر ایک قدیم درخت کا سایہ ہے۔درخت پر نئی نئی کونپلیں پھوٹی ہوئی تھیں جن کی خوشبو سے فضا معطر تھی، میں نے سر اٹھایا اور سوچا کہ اس مقدس درخت کے چند پتوں کو چھو کر ہی دیکھ لوں، اسی دم میری نگاہ ایک بڈھے پر پڑی۔
درخت اور بزرگ کی قدامت باہم گھل مل سی گئی۔ مجھے کراچی کے ایک بزرگ سائیکل سوار کی یاد آئی جس نے تحریک آزادی کے زمانے کے مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز جیسا خاکی شلوار قمیص پہن رکھا ہوتا، سائیکل کی کاٹھی کے پیچھے ایک بڑا پورٹریٹ قائد اعظمؒ کا ہوتا اور قائد اعظمؒ کے دائیں بائیں اقبالؒ اور دیگر بزرگوں کی تصویریں۔ اس شخص کو سائیکل چلاتے میں نے کبھی نہیں دیکھتا، ہمیشہ سائیکل کے ہینڈل، تصویروں اور جھنڈوں کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں پیدل ہی چلتے پایا۔ یہ بابا بھی کچھ ایسا تھا۔عثمانی فوجیوں کی وردی میں ملبوس، ایک ہاتھ میں سرخ اور دوسرے میں سبز عثمانی پرچم سنبھالے چپ چاپ کھڑا تھا، سینے پر کئی میڈل جگ مگا رہے تھے اور کمر بند پر ہتھیار بندھے تھے۔ لوگ اس بزرگ کے دائیں بائیں آتے، سیلفی بناتے اور آگے پیچھے ہو جاتے۔ اسی بزرگ کو دیکھتے دیکھتے نگاہ کچھ اور چہروں پر جا پڑی، پاکستانی لگتے تھے، سلام دعا سے تصدیق بھی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی ایک حقیقت کا انکشاف بھی ہوا۔ یہ اخوت کے لوگ تھے جو حکومت کی دعوت پر یہاں آئے تھے۔ معلوم ہوا کہ ترکوں نے اس تنظیم کے مواخات اور قرض حسنہ کے ماڈل سے متاثر ہو کر انھیں دعوت دی ہے کہ آئیے! اس کے بارے میں ہمیں بھی کچھ بتائیے۔ یوں، پہلی بار میں نے سوچا کہ گھر کی مرغی دال برابر نہیں ہوتی، وہ بھی کچھ ایسا کمال کر سکتی ہے کہ ترک بھائی بھی اس سے سیکھنے کی ضرورت محسوس کریں۔ اسی طرح الخدمت والے ہیں، قربانی کی کھالوں کی برکت سے انھوں نے ایسے کارنامے کر ڈالے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس میدان میں مسلم ہینڈز کے نام سے اب ایک نئی تنظیم بھی شامل ہو گئی ہے، تعلیم سے لے کر خدمت کے دیگر بہت سے کاموں تک اس کا دائرہ بھی وسیع ہے اور کارنامے حیران کن، خیر الخدمت ہو، مسلم ہینڈز ہو یا اخوت، یہ وسائل رکھنے والی تنظیمیں ہیں، ان کے کارنامے حیرت میں ڈال دیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے لیکن اگر کچھ بے وسیلہ لوگ بھی اس میدان میں اپنے نقش جما دیں تو حیرت کیوں نہ ہو۔ زاہد کاظمی ہری پور کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں۔ آپ بیتیاں جمع کرنے کا شوق ہے، اپنے گھر میں آپ بیتیوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع کر لیا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہے۔ آپ بیتیوں کی بات تو بر سبیل تذکرہ درمیان میں اگئی، ان کا اصل کارنامہ تو ایک روپیہ اسکول ہے۔ یہ انھوں نے جوڑیاں کے مقام پر قطبہ کے قریب، یونین کونسل بریلہ،ضلع ہری پور میں کرائے کے ایک مکان میں قائم کیا ہے اور صرف اپنے گاؤں کے ہی نہیں،ارد گرد کے دیہات کے نادار اور غریب خاندانوں کے بچوں کوبھی پڑھاتے ہیں۔ ان بچوں کے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام ہے، پہننے کے لیے کپڑے اور پڑھنے کے لیے کتابیں۔ اس سب کے عوض وہ فی بچہ ایک روپیہ ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں تاکہ فیس دے کر ذمے داری کا احساس بھی ہو اور اعتماد سے سر اٹھانے کی ہمت بھی۔چار سال قبل چالیس بچوں اور بچیوں سے شروع کیے جانے والے اسکول میں اب ڈیڑھ سو بچے زیر تعلیم ہیں۔اس منصوبے کے کچھ اخراجات زاہد خود برداشت کرتے ہیں اور کچھ صاحبان دل۔ اس وقت ساٹھ فیصد بچوں کے اسپانسر موجود ہیں، اگر یہ اسپانسر شپ سو فیصد ہو جائے تو اسکول اپنے بچوں کو معیاری غذا فراہم کرنے کے قابل بھی ہو سکے گا۔یہ اخراجات کچھ زیادہ نہیں، تین ہزار روپے فی بچہ ماہانہ اور پینتیس ہزار روپے سالانہ ہیں، ہدف تو اتنا زیادہ نہیں، کیا خبر اس ماہ مبارک کی برکت سے یہ کام ہو ہی جائے جن اصحاب درد کو یہ منصوبہ اپنے دل سے قریب لگے، وہ زاہد کاظمی سے (0300-5091908)رابطہ بھی کرسکتے ہیں اور خود جاکر اسکول اور اس کے معیار کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں ۔کورونا کی افتاد میں ہم پرجہاں اور بہت سی حقیقتیں آشکار ہوئی ، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جہالت کا عذاب نہ ہوتا تو اس دشمن سے ہم زیادہ مؤثر طریقے سے لڑتے۔اپنی بساط کے مطابق ہی سہی لیکن زاہد ہماری یہی ضرورت پوری کررہے ہیں۔یہ انفاق کے دن ہیں ، اہل ثروت پیسہ جیب میں لیے مستحقین کی تلاش میں پھرتے ہیں ، یقینا وہ حق داروں تک ان کا حق پہنچائیں گے لیکن اگر ایسا کرتے ہوئے بے غرضی سے کام کرنے والے رفاحی ادارے نیز زاہد کاظمی کے ایک روپیہ اسکول یا اس جیسے دیگر اسکول بھی ان کی نگاہ میں رہیں تو بہت اچھا ہو۔