اُس نے کہا پھر بتایا کہ کوئی نہیں جانتا، اسے کب بنایا گیا،کیوں بنایا گیا ۔یہ بھی خبر نہیں کہ اسے بنانے والا کون ہے؟بس، یوں سمجھوکہ جب سے یہ دنیا ہے،تب ہی سے گض گلاسی بھی ہے۔ہاں تو سنو!
تمہید باندھ کر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا، چائے کی ایک چسکی لی اور کہا کہ اگرتمھارے کانوں میں صبر ہوا تو تم کچھ ایسا جان کر اٹھو گے جسے کم ہی لوگ جانتے ہوں گے۔مایا یہ سن کر کسمسائی، صاف نظر آرہا تھا کہ اگر یہاں بیٹھ گئے تو پھر کہیں اور جانے سے تو رہے لیکن میں نے اسے حوصلہ دیا اور بتایا کہ ہم یہ کہانی سنے بغیر نہیں جائیں گے۔نہاد کا چمکتا ہوا چہرہ مزید چمک اٹھا اور اس نے کچھ الفاظ ایسے بولے جنھیں یہ غریب مسافر تو کیا سمجھتا،اسی مٹی کی جم پل مایا بھی نہ سمجھ پائی۔یوں میں نے یہ جانا کہ یہ نہاد کوئی قصہ گو ہے جو تاریخ کی کسی کتاب سے نکل کر ہمارے سامنے آموجود ہوا ہے۔
”اصل میں یہ ایک آتش کدہ تھا“۔
نہاد نے بات شروع کی اور بتایا کہ اس کی چوٹی پرہمہ وقت شعلے بھڑکا کرتے اور دور دور تک حضرت زرتشت کے ماننے والوں کو یقین دلاتے کہ جب تک ان شعلوں میں لپک موجود ہے،وہ محفوظ ہیں،بس اس کی پرستش کرو اور اس کے سامنے جھکتے رہا کرو۔یہ پرانے زمانوں کی بات ہے،ہاں، بہت ہی پرانے زمانوں کی جب اِچری شہر پر حملہ ہوا اور اس کا محاصرہ کرلیا گیا۔ محاصرہ اتنا سخت تھا کہ کوئی اندر آسکتا نہ باہر جاسکتا۔دانہ پانی یہاں کا ختم ہوگیا ۔حملہ آور نے پیغام بھیجا کہ اطاعت قبول کرلو، جاں بخشی ہوجائے گی۔شہر والوں نے تامل کیا اور پجاری سے کہا کہ وہ کوئی سبیل کرے۔پجاری اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کے ساتھ آگ کے سامنے سرنگوں ہوا اور ہرمزد(Ahura Mazda،زرتشت مذہب میں نیکی کے دیوتا)سے درخواست کی کہ وہ اپنے بندوں کی مدد کو آئے۔کئی روز کی مسلسل عبادت کے بعد دیوتا نے پجاری کو تسلی دی اور خوش خبری دی کہ جمے رہو، دشمن تمھارا کچھ نہ بگاڑ پائے گا۔اس کے ساتھ ہی زمین تھرتھرائی اور دشمن کو خوف نے آلیا۔یہ ایک خوف ناک زلزلہ تھا ، دشمن جس کی لپیٹ میں آکر نابود ہوا اور یہ شہر مامون رہا۔
نہاد نے اتنا کہہ کر سانس لی اور ٹھنڈی پڑتی ہوئی چائے کی ایک چسکی اور ہم یہ جانے کہ داستان تمام ہوئی۔ہم ابھی اٹھنے کو ہی تھے کہ نہاد نے خبردار کیا کہ اس کہانی میں کچھ جھول ہیں۔
”پھر؟“
ہمارے سوال نے اس محظوظ کیا اور کہا، پھر یہ کہ لاریب یہ عظیم ہے تو یانگن (Yangin)یعنی آگ کا معبد ہی لیکن اس واقعے میں دراصل ہوا یہ تھا کہ جب حملے نے زورپکڑا اور دیوتا کے حضور پجاریوں کی آہ و بکا میں تیزی آئی تو اسی لمحے مینار کی چوٹی سے بھڑکتی ہوئی آگ کا ایک شعلہ زمین پر گرا،شعلے سے حسینہ برآمد ہوئی جس کے بال ہوا میں لہراتے اور شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے۔آگ سے برآمد ہوکر اِس حسینہ نے ایک پھریری لی اور پکار کر کہا کہ لاو¿ میری تلوار کدھر ہے؟ تلوار اسے پیش کی گئی ۔اس کے حکم پر شہر پناہ کا دروازہ کھول دیا گیا اور وہ پہلوانوں کی طرح لپکتی ہو ئی صفِ دشمناں کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ دشمن حیران کہ یہ لڑکی اس سے مقابلہ کرے گی مگر اسی لڑکی نے اپنے وقت کے بہادروں کی طرح حملہ آور بادشاہ کو للکارا ۔بادشاہ مقابلے پر آیا اور شکست کھائی۔ عین اس لمحے جب تلوار کے وار سے وہ اِس کا سر تن سے جدا کرتی، مغلوب نے جو پہلی نظر میں ہی گھائل ہوچکا تھا، اس غیرت ناہید سے یہ کہتے ہوئے اظہار عشق کردیاکہ اس شہر کی بیٹیاں اتنی بہادر ہیں توکون انھیں شکست دے سکتا ہے۔میری جان مت لو میں تم سے محبت کرتا ہوں۔یہ سنتے ہی آگ کی بیٹی مغلوب کے سینے سے اتر آئی ۔دونوں کے درمیان راز و نیاز ہوئے ، پھر وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔تب سے یہ شہر امن میں ہے اور مینار کا شعلہ سرد ہے۔نہاد نے داستان ختم کردی لیکن یہ سوال ہنوز باقی تھا کہ یہ سب ہوا ہوگا لیکن یہ مینار کب بنا اورکیسے بنا؟
چائے کی پیالیاں کچھ خالی تھیں اور کچھ ٹھنڈی ہوکر بدمزہ ہو چکی تھیں۔ ایک چائے دانی(çay cani) مزید منگوا لی گئی اور داستاں گو تازہ دم ہوکرپھر رواں ہوگیا:
”یہ ایک دکھ بھری داستان ہے“۔
(جاری ہے)