Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات ۔
اسکندریہ میں نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے ۔یہ دونوں مزارات ایک ہی تہ خانے میں قریب قریب ہیں ۔ مسجد دانیال میں ظہر کی نماز کے بعد ہمارے لئے وہ دروازہ کھولا گیا، جہاں چوبی سیڑھیاں تہ خانے میں اترتی ہیں ۔یہ تہ خانہ ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ہے، جہاں ایک قبر پر سبز چادر پڑی ہوئی تھی، یہ نبی دانیال کی قبر بتائ جاتی ہے ۔دوسری قبر پر سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی، اسے حکیم لقمان کی قبر بتائ جاتی ہے ۔ اصل میں تو یہ دونوں مقابر مشکوک ہیں ۔
حضرت دانیال کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں صراحت کے ساتھ نہیں ملتا۔البتہ عربوں کی تاریخی روایات میں تورات کے دانیال نامی دو شخصیتوں کے بارےمیں کچھ نامکمل بیان محفوظ ہے ۔ان میں سے ایک دانیال تو وہ ہیں جن کا صحیفہ حزقیل کے صحیفے کے بعد ہے ۔
اور دوسرے دانیال وہ صاحب کشف و تعبیر ہیں جو بنی اسرائیل ی کی اسیری کے زمانے میں بابل میں رہتے تھے ۔
بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری کو فتح سوس(ایران کا علاقہ )کے بعد وہاں کے قلعے سے دانیال نبی کی نعش ملی تھی تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے نئے کفن کے بعد، دریا کا پانی بند کر کے وسط دریا میں دفن کر دیا اور پھر پانی جاری کر دیا ۔
اسی سلسلے میں بلاذری یہ بھی بیان کرتا ہے کہ بخت نصر حضرت دانیال کو قید کر کے بابل لے آیا تھا اور وہ وہیں فوت ہوئے تھے ۔پھر اہل سوس کے ہاں قحط پڑا تو انہوں نے اہل بابل سے دانیال نبی کی نعش مانگی تاکہ ان کی برکت سے بارش حاصل کر سکیں ۔یوں ان کی لاش سوس آ گئ ۔اور وہاں وہ ابو موسی اشعری کو ملی ۔
اسی طرح سے حکیم لقمان کی شخصیت کے گرد بھی روایات اور بعض اساطیری حکایات نے ایک پر اسراریت پیدا کر رکھی ہے ۔قرآن کریم میں سورہ لقمان میں حکیم لقمان کے ذکر سے یہ تو سو فیصد ثابت ہوتا ہے کہ اس نام کی ایک شخصیت موجود تھی مگر تفصیلات میں بڑا اضطراب ہے ۔
ان روایات کےاضطرار کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسکندریہ میں جن قبروں پر ہم نے حاضری دی وہ واقعی حضرت دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات تھے ۔
نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات ۔
اسکندریہ میں نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے ۔یہ دونوں مزارات ایک ہی تہ خانے میں قریب قریب ہیں ۔ مسجد دانیال میں ظہر کی نماز کے بعد ہمارے لئے وہ دروازہ کھولا گیا، جہاں چوبی سیڑھیاں تہ خانے میں اترتی ہیں ۔یہ تہ خانہ ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ہے، جہاں ایک قبر پر سبز چادر پڑی ہوئی تھی، یہ نبی دانیال کی قبر بتائ جاتی ہے ۔دوسری قبر پر سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی، اسے حکیم لقمان کی قبر بتائ جاتی ہے ۔ اصل میں تو یہ دونوں مقابر مشکوک ہیں ۔
حضرت دانیال کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں صراحت کے ساتھ نہیں ملتا۔البتہ عربوں کی تاریخی روایات میں تورات کے دانیال نامی دو شخصیتوں کے بارےمیں کچھ نامکمل بیان محفوظ ہے ۔ان میں سے ایک دانیال تو وہ ہیں جن کا صحیفہ حزقیل کے صحیفے کے بعد ہے ۔
اور دوسرے دانیال وہ صاحب کشف و تعبیر ہیں جو بنی اسرائیل ی کی اسیری کے زمانے میں بابل میں رہتے تھے ۔
بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری کو فتح سوس(ایران کا علاقہ )کے بعد وہاں کے قلعے سے دانیال نبی کی نعش ملی تھی تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے نئے کفن کے بعد، دریا کا پانی بند کر کے وسط دریا میں دفن کر دیا اور پھر پانی جاری کر دیا ۔
اسی سلسلے میں بلاذری یہ بھی بیان کرتا ہے کہ بخت نصر حضرت دانیال کو قید کر کے بابل لے آیا تھا اور وہ وہیں فوت ہوئے تھے ۔پھر اہل سوس کے ہاں قحط پڑا تو انہوں نے اہل بابل سے دانیال نبی کی نعش مانگی تاکہ ان کی برکت سے بارش حاصل کر سکیں ۔یوں ان کی لاش سوس آ گئ ۔اور وہاں وہ ابو موسی اشعری کو ملی ۔
اسی طرح سے حکیم لقمان کی شخصیت کے گرد بھی روایات اور بعض اساطیری حکایات نے ایک پر اسراریت پیدا کر رکھی ہے ۔قرآن کریم میں سورہ لقمان میں حکیم لقمان کے ذکر سے یہ تو سو فیصد ثابت ہوتا ہے کہ اس نام کی ایک شخصیت موجود تھی مگر تفصیلات میں بڑا اضطراب ہے ۔
ان روایات کےاضطرار کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسکندریہ میں جن قبروں پر ہم نے حاضری دی وہ واقعی حضرت دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات تھے ۔
نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات ۔
اسکندریہ میں نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے ۔یہ دونوں مزارات ایک ہی تہ خانے میں قریب قریب ہیں ۔ مسجد دانیال میں ظہر کی نماز کے بعد ہمارے لئے وہ دروازہ کھولا گیا، جہاں چوبی سیڑھیاں تہ خانے میں اترتی ہیں ۔یہ تہ خانہ ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ہے، جہاں ایک قبر پر سبز چادر پڑی ہوئی تھی، یہ نبی دانیال کی قبر بتائ جاتی ہے ۔دوسری قبر پر سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی، اسے حکیم لقمان کی قبر بتائ جاتی ہے ۔ اصل میں تو یہ دونوں مقابر مشکوک ہیں ۔
حضرت دانیال کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں صراحت کے ساتھ نہیں ملتا۔البتہ عربوں کی تاریخی روایات میں تورات کے دانیال نامی دو شخصیتوں کے بارےمیں کچھ نامکمل بیان محفوظ ہے ۔ان میں سے ایک دانیال تو وہ ہیں جن کا صحیفہ حزقیل کے صحیفے کے بعد ہے ۔
اور دوسرے دانیال وہ صاحب کشف و تعبیر ہیں جو بنی اسرائیل ی کی اسیری کے زمانے میں بابل میں رہتے تھے ۔
بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری کو فتح سوس(ایران کا علاقہ )کے بعد وہاں کے قلعے سے دانیال نبی کی نعش ملی تھی تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے نئے کفن کے بعد، دریا کا پانی بند کر کے وسط دریا میں دفن کر دیا اور پھر پانی جاری کر دیا ۔
اسی سلسلے میں بلاذری یہ بھی بیان کرتا ہے کہ بخت نصر حضرت دانیال کو قید کر کے بابل لے آیا تھا اور وہ وہیں فوت ہوئے تھے ۔پھر اہل سوس کے ہاں قحط پڑا تو انہوں نے اہل بابل سے دانیال نبی کی نعش مانگی تاکہ ان کی برکت سے بارش حاصل کر سکیں ۔یوں ان کی لاش سوس آ گئ ۔اور وہاں وہ ابو موسی اشعری کو ملی ۔
اسی طرح سے حکیم لقمان کی شخصیت کے گرد بھی روایات اور بعض اساطیری حکایات نے ایک پر اسراریت پیدا کر رکھی ہے ۔قرآن کریم میں سورہ لقمان میں حکیم لقمان کے ذکر سے یہ تو سو فیصد ثابت ہوتا ہے کہ اس نام کی ایک شخصیت موجود تھی مگر تفصیلات میں بڑا اضطراب ہے ۔
ان روایات کےاضطرار کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسکندریہ میں جن قبروں پر ہم نے حاضری دی وہ واقعی حضرت دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات تھے ۔
نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات ۔
اسکندریہ میں نبی دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے ۔یہ دونوں مزارات ایک ہی تہ خانے میں قریب قریب ہیں ۔ مسجد دانیال میں ظہر کی نماز کے بعد ہمارے لئے وہ دروازہ کھولا گیا، جہاں چوبی سیڑھیاں تہ خانے میں اترتی ہیں ۔یہ تہ خانہ ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ہے، جہاں ایک قبر پر سبز چادر پڑی ہوئی تھی، یہ نبی دانیال کی قبر بتائ جاتی ہے ۔دوسری قبر پر سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی، اسے حکیم لقمان کی قبر بتائ جاتی ہے ۔ اصل میں تو یہ دونوں مقابر مشکوک ہیں ۔
حضرت دانیال کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں صراحت کے ساتھ نہیں ملتا۔البتہ عربوں کی تاریخی روایات میں تورات کے دانیال نامی دو شخصیتوں کے بارےمیں کچھ نامکمل بیان محفوظ ہے ۔ان میں سے ایک دانیال تو وہ ہیں جن کا صحیفہ حزقیل کے صحیفے کے بعد ہے ۔
اور دوسرے دانیال وہ صاحب کشف و تعبیر ہیں جو بنی اسرائیل ی کی اسیری کے زمانے میں بابل میں رہتے تھے ۔
بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری کو فتح سوس(ایران کا علاقہ )کے بعد وہاں کے قلعے سے دانیال نبی کی نعش ملی تھی تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے نئے کفن کے بعد، دریا کا پانی بند کر کے وسط دریا میں دفن کر دیا اور پھر پانی جاری کر دیا ۔
اسی سلسلے میں بلاذری یہ بھی بیان کرتا ہے کہ بخت نصر حضرت دانیال کو قید کر کے بابل لے آیا تھا اور وہ وہیں فوت ہوئے تھے ۔پھر اہل سوس کے ہاں قحط پڑا تو انہوں نے اہل بابل سے دانیال نبی کی نعش مانگی تاکہ ان کی برکت سے بارش حاصل کر سکیں ۔یوں ان کی لاش سوس آ گئ ۔اور وہاں وہ ابو موسی اشعری کو ملی ۔
اسی طرح سے حکیم لقمان کی شخصیت کے گرد بھی روایات اور بعض اساطیری حکایات نے ایک پر اسراریت پیدا کر رکھی ہے ۔قرآن کریم میں سورہ لقمان میں حکیم لقمان کے ذکر سے یہ تو سو فیصد ثابت ہوتا ہے کہ اس نام کی ایک شخصیت موجود تھی مگر تفصیلات میں بڑا اضطراب ہے ۔
ان روایات کےاضطرار کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسکندریہ میں جن قبروں پر ہم نے حاضری دی وہ واقعی حضرت دانیال اور حکیم لقمان کے مزارات تھے ۔