’وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے یوں ہے جیسے ابھی کی بات ہو۔‘
یہ کہہ کر انھوں نے اُداسی کے ساتھ آنکھیں جھپکیں اور کہا ’عبد الحمید جاں بہ لب تھا اور خون میں تر بہ تر، میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنے ساتھی کو گولیوں سے چھلنی دیکھ کر غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہجوم کے درمیان ہی سڑک پر بیٹھ کر میں نے اُس کا سر گود میں لے لیا اور سوچا کہ کاش کوئی معجزہ ہو جائے اور اس کی اکھڑتی ہوئی سانسیں بحال ہو جائیں، خیال کی رو ابھی جاری تھی کہ عبدالحمید نے ہچکی لی اور اس کا سر ڈھلک گیا۔‘
جب میں نے حسام الحق سے اس واقعے کے بارے میں سوال کیا تو اُن کے ہشاش بشاش چہرے پر اُداسی بکھر گئی۔ حسام اُن دنوں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے جوائنٹ سیکریٹری تھے اور ناصرف اس واقعے کے عینی شاہد بلکہ سنہ 1968 کی طلبا تحریک کے بھی۔
اس واقعے کی تفصیل حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے اپنی کتاب ’سورج پر کمند‘ میں بیان کی ہے۔
سنہ 1968 کے طلبا فسادات
قانون دان اور ایوب کابینہ کے رکن ایس ایم ظفر کے خیال میں یہ ذرا سی بات تھی جو قیامت ڈھا گئی۔
اپنی کتاب ’تھرو دی کرائسس‘ میں انھوں نے کچھ اسی قسم کی بات لکھی ہے کہ کلکٹر کسٹمز (لاہور) حرکت قلب بند ہونے سے انتقال نہ کر جاتے اور لنڈی کوتل سے آنے والے طلبا سے ضبط کی گئی چیزوں کی واگزاری میں (ارادی یا غیر ارادی) تاخیر نہ ہوتی اور اس تاخیر پر طلبا مایوس نہ ہوتے تو وہ ملک کی ہر اتھارٹی کے خلاف پھٹ بھی نہ پڑتے۔
اس کتاب میں سنہ 1968 میں ایوب حکومت کے خلاف پھوٹ پڑنے والی بھرپور احتجاجی تحریک کی وجہ جس سادگی سے بیان کی گئی ہے، بات اتنی سادہ ہے نہ اس کا پس منظر جانے بغیر اسے سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟
یہ سمجھنے کے لیے اُس زمانے کے سیاسی حالات پر نگاہ ڈالنی ہو گی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب کابینہ سے مستعفی ہو کر ملک کے مختلف حصوں کے طوفانی دورے کر رہے تھے اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے تھے۔
یہ سات نومبر 1968 کی بات ہے، ذواالفقار علی بھٹو ڈیرہ اسماعیل خان کے دورے سے واپس راولپنڈی لوٹ رہے تھے۔
کتاب ’سورج پر کمند‘ کے مطابق اُن کی واپسی کی اطلاع پر طلبا نے فیصلہ کیا کہ کالج سے باہر آ کر اِن کا خیر مقدم کیا جائے، اس طرح ایک ابھرتے ہوئے رہنما کے طور پر راولپنڈی میں انھیں خطاب کا موقع بھی مل جائے گا اور حکومت کے خلاف عوامی جذبات کے اظہار کی ایک اور صورت بھی پیدا ہو گی۔
کتاب کے مطابق بھٹو صاحب نے اس موقع پر جیپ کی چھت پر سوار ہو کر طلبہ سے خطاب کیا اور آگے بڑھ گئے لیکن طلبہ کا جوش و خروش اُن کے جانے کے بعد بھی برقرار رہا۔ اس دوران میں ٹریفک معطل ہو گئی جسے بحال کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا گیا لیکن پولیس اس کے باوجود طلبہ کو منتشر کرنے میں ناکام رہی جس پر اُن پر فائرنگ کر دی گئی۔
اسی فائرنگ کا نشانہ بن کر عبدالحمید نے موقع پر ہی جان دے دی۔
حسام الحق جو بعد میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) پنجاب کے صدر منتخب ہوئے، اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعے کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ایوب خان کے سیکریٹری اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’شہاب نامہ‘ میں یہ واقعہ مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ’طلبہ کا ایک گروپ طورخم وغیرہ کی سیاحت سے واپس آ رہا تھا۔ راولپنڈی پولی ٹیکنیک (انسٹیٹیوٹ) پہنچتے ہی پولیس نے انھیں روکا اور الزام لگایا کہ وہ لنڈی کوتل کی باڑہ مارکیٹ سے بہت سا سامان سمگل کر رہے ہیں، اس لیے ان کی تلاشی لی جائے گی۔ یہ ایک بندھا بندھایا معمول تھا کہ بہت سے سیاح لنڈی کوتل کے باڑہ بازار سے کچھ خرید و فروخت کا سامان اپنے ساتھ لایا کرتے تھے اور ان سے کبھی کوئی باز پرس نہ کی جاتی تھی۔‘
’اس دستور کے برعکس جب طلبہ سے تلاشی لینے پر اصرار کیا گیا تو انھوں نے مشتعل ہو کر ہنگامہ برپا کر دیا۔ پولی ٹیکنیک کے بہت سے طالب علم بھی اس میں شامل ہو گئے۔ پولیس نے جی بھر کر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا اور جب صورتحال قابو میں نہ آ سکی تو انھوں نے گولی چلا دی جس سے ایک نوجوان طالب علم عبدالحمید جاں بحق ہو گیا۔‘
اس واقعے نے پورے ملک میں آگ لگا دی اور ایوب حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریک شروع ہو گئی لیکن اس تحریک کی بنیاد کیسے پڑی؟
اس کی تفصیل راولپنڈی کے ایک اور سیاسی کردار عبدالرشید شیخ نے بتائی جو ان ہی دنوں گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سٹوڈنٹس یونین کے صدر اور صحافی محمد نواز رضا سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔ یہ دونوں چاہتے تھے کہ نو منتخب یونین سے حلف وفاداری سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو لیں چنانچہ عبدالرشید شیخ انھیں مدعو کرنے کے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے۔
اپنا دورہ مکمل کر کے ذوالفقار علی بھٹو واپس راولپنڈی روانہ ہوئے تو عبدالرشید شیخ ان کی گاڑی میں تھے اور پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں بھٹو کا خطاب بھی ان کے سامنے کا واقعہ ہے جس کے بعد فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا۔
وہ بتاتے ہیں ’اس واقعے سے اگلے ہی روز انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر شہر بھر کے کالجوں کی سٹوڈنٹس یونینوں کو جمع کر کے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔ یہ تحریک پُرامن ہی رہتی، اگر اس پر تشدد نہ کیا جاتا۔ پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا لیکن ناکامی پر پولی ٹیکنیک کے واقعے کی طرح فائرنگ پر اتر آئی جس پر جلاؤ گھیراؤ ہوا اور توڑ پھوڑ بھی۔‘
محمد نواز رضا بتاتے ہیں ’تحریک کا مرکز گورنمنٹ کالج اصغر مال تھا، شہر بھر کے طلبہ آئندہ کے پروگرام اور پالیسی کے لیے اسی کی طرف دیکھا کرتے تھے۔‘
قدرت اللہ شہاب کے مطابق راولپنڈی میں اس دن یعنی تحریک کے پہلے ہی روز دو افراد ہلاک ہوئے۔
وہ تحریک جو راولپنڈی کے تعلیمی اداروں سے شروع ہوئی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تحریک میں کتنی وسعت اور شدت تھی، قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے ’جواں سال عبد الحمید کا خون ناحق بہتے ہی ملک کا گوشہ گوشہ بدامنی اور شورش کے لامتناہی طوفان کی زد میں آ گیا۔ سات نومبر 1968 سے لے کر 25 مارچ 1969 تک کوئی دن ایسا نہ گزرا جب کہیں نہ کہیں طلبہ اور عوام کے جلسے جلوس، توڑ پھوڑ، لوٹ مار، پتھراؤ گھیراؤ یا جلاؤ کے واقعات رونما نہ ہوئے ہوں۔‘
تحریک پر سوالات
تحریک کی شدت اور زور و شور کے بارے میں حکومت کے دو ذمہ داران نے بہت اہم سوالات اٹھائے تھے، ان میں ایک ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر اور دوسرے ان کے وزیر انصاف ایس ایم ظفر تھے۔
ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اس وقت کا انتخاب کیا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایوب خان پر ضرب لگانے کا یہ بہترین وقت ہے۔ یہ بات لکھنے کے بعد وہ سوال اٹھاتے ہیں: ’یہ فیصلہ خود ان کا اپنا تھا یا یہ راستہ کسی اور نے انھیں دکھایا تھا؟’
وہ پھر خود لکھتے ہیں کہ اس سوال کا ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
اس صورتحال کے بارے میں الطاف گوہر کی حیرت بھی ایس ایم ظفر سے مختلف نہیں لیکن ان کے سوال اور اس میں ظاہر کیے گئے امکانات میں زیادہ وسعت ہے۔
انھوں نے اپنی کتاب ’ایوب خان: فوج راج کے دس سال‘ میں لکھا ہے کہ ’آج بھی اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں کہ راولپنڈی میں ہونے والے طلبہ کے ایک احتجاجی مظاہرے نے یکا یک عوامی تحریک کی شکل کیسے اختیار کر لی اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں کیسے آ گیا؟ کیا ایوب خان کے نظام کے خلاف عوام کے بڑھتے ہوئے جوش و جذبے کو دیکھ کر ان کے کم حوصلہ ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے؟ کیا یہ صورتحال ایک طویل سیاسی گھٹن کا شاخسانہ تھی؟ کیا فوج نے بعض سیاست دانوں کے تعاون سے ایوب خان کے خلاف کوئی سازش تیار کی تھی؟ یا پھر امریکی سی آئی اے ایوب خان کے زوال کی ذمہ دار تھی؟’
ان سوالات کے جواب ایس ایم ظفر اور ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے اپنے اپنے انداز میں دیے ہیں لیکن اُس زمانے کے ’ایفرو ایشین سالیڈیٹی گروپ‘ کے سربراہ اور بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریب ترین ساتھی معراج محمد خان کی گواہی سب سے مختلف اور بہت اہم ہے۔
معراج محمد خان نے جنھیں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار اپنا سیاسی جانشین بھی قرار دیا تھا، نومبر 2012 کے آخر میں مجھے ایک انٹرویو دیا تھا جو دسمبر 2012 کو روزنامہ ’نئی بات‘ میں شائع ہوا تھا۔
اس میں ان کا کہنا تھا ’ایوب کی ہیبت ایسی تھی کہ بھٹو خود بھی پنجاب میں نکلنے سے ڈرتا تھا، اس صورتحال میں میں نے ایک منصوبہ بنایا اور بھٹو سے کہا کہ تم آ کر راولپنڈی میں بیٹھ جاؤ، جب ہم کہیں باہر آ جانا۔ ہم لوگوں نے جو منصوبہ بنایا اس میں گورڈن کالج کا پرویز رشید جو اب ن لیگ میں ہے، ایک اور دوست اعصام الحق اور ایک لڑکی نے جس کا نام اس وقت ذہن میں نہیں، بنیادی کام کیا۔‘
’اعصام کسٹم کے محکمے میں ملازم تھا، اسے بھی منصوبے میں شامل کر لیا۔ ہم نے یہ کیا کہ کالج کے لڑکوں کا ایک ٹرپ سوات جا رہا تھا، اسے باڑہ بھیج دیا۔ اعصام کو میں نے بتایا کہ وہ کچھ سامان خریدیں گے۔ تم انھیں پکڑ لینا اور دو چار بید بھی لگا دینا۔ باقی کا معاملہ ہم سنبھال لیں گے۔ اس نے یہ کر دیا اور اس کے نتیجے میں طلبا نے ہنگامہ کر دیا۔‘
’پشاور روڈ سے فوجی ٹرک گزرتے ہیں، انھیں بھی روکا۔ فوجی ایسی باتوں سے بہت چڑتے ہیں، فوجی سول انتظامیہ پر چڑھ دوڑے۔ سول انتظامیہ نے صدر کے علاقے میں فائرنگ کر دی جس سے ایک طالب علم شہید ہو گیا۔ یہ ہو گیا تو میں نے بھٹو سے کہا کہ باہر آ جاؤ۔ وہ جھجھک رہا تھا لیکن میرے کہنے پر صدر کے علاقے میں آ گیا اور ایک شاندار تقریر کی۔ اپنا گریبان پھاڑ ڈالا اور کہا کہ ان معصوم بچوں کو کیوں مار رہے ہو؟ ہمت ہے تو آؤ مجھے مارو، مجھ پر گولی چلاؤ۔ بس، اس کے بعد آگ لگ گئی۔ ہم لوگ پنڈی سے نکل کر پورے پنجاب میں پھیل گئے۔‘
قدرت اللہ شہاب نے ان ہنگاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے باڑہ سے آنے والے طالب علموں کی تلاشی اور ان کے سامان کی ضبطی جیسے معاملے پر ہی حیرت ظاہر کی ہے کہ خلاف روایت ایسا کیوں ہوا؟ معراج محمد خان کی جانب سے بتائی گئی باتیں اس معمے کو حل کر دیتی ہے۔ کسٹم حکام کی طرف سے جس طرح پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے قریب کارروائی کی گئی اس واقعے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہنگامہ اتنا شدید تھا کہ اس موقع پر گولی چلائی جاتی؟
اس وقت انسٹیٹیوٹ کی سٹوڈنٹس یونین کے منتخب عہدے دار اور ان واقعات کے عینی شاہد حسام الحق کے مطابق پولی ٹیکنیک کے ہنگامے میں اتنی شدت ہرگز نہ تھی کہ گولی چلانے کی نوبت آ جاتی۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں ’اس ہنگامے پر فائرنگ کر کے ایوب مخالف تحریک میں شدت پیدا کی گئی جس سے ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا دروازہ کھلا۔‘
صحافی محمد نواز رضا کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آیا فائرنگ کا فیصلہ کوئی سازش تھی۔
اس سلسلے میں کچھ شہبات ظاہر کرنے کے علاوہ قدرت اللہ شہاب یا الطاف گوہر کی تحریروں میں کوئی شہادت نہیں ملتی لیکن ایس ایم ظفر کی کتاب کا وہ باب جس کی ابتدا میں ان فسادات کا ذکر کیا گیا ہے، اس سوال کا جواب ذرا مختلف انداز میں دیتا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ اپریل 1968 کی بات ہے، راولپنڈی کے ہوٹل انٹرکانٹینینٹل کی راہداری سے گزرتے ہوئے مسٹر زیڈ اے بھٹو نے مجھ سے کہا کہ اگلے اکتوبر یا نومبر میں (یہ ملک) خون میں نہائے گا۔‘
اس غیر معمولی انکشاف پر ایس ایم ظفر اپنے ردعمل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے ان (بھٹو) سے بالکل نہیں کہا کہ وہ اپنے انکشاف کی وضاحت کریں کیوں کہ میں جانتا تھا کہ وہ طلبہ کی اس ممکنہ بدامنی کی بات کر رہے ہیں جو اکتوبر میں کالج کھلنے کے بعد متوقع ہو سکتی تھی۔‘
انتظامیہ کا کردار
ایوب خان کے خلاف طویل احتجاجی تحریک کے ضمن میں مجموعی طور پر انتظامیہ کا کردار کیسا تھا، قدرت اللہ شہاب نے اس سوال پر روشنی ڈالی ہے، ان کے مطابق ’عوامی غیض و غضب کے سامنے پولیس بے دست و پا ہو گئی تو امن قائم رکھنے کے لیے فوج کو میدان میں اتارا گیا لیکن بہت جلد یہ راز کھل گیا کہ فوجی افسروں کو درپردہ ہدایت تھی کہ صدر ایوب کے خلاف مظاہرے کرنے والوں پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے چناںچہ شہر میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود لوگ ہزاروں کی تعداد میں بھٹو صاحب کی تقریریں سننے کے لیے جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہوتے رہے۔‘
اسی زمانے میں ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ملک کے مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں اس مضمون کے اشتہار لگائے گئے کہ ملک میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے بری فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان فوری طور پر اقتدار سنبھال لیں۔ انٹیلیجنس کی تحقیقات کے مطابق ان اشتہارات کے پس پشت فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے لنگوٹیے دوست مسٹر علوی کا ہاتھ تھا جو ایک بینک کے مالک تھے۔
ایوب خان کے طویل اقتدار کا تختہ الٹ کر یحییٰ خان کے اقتدار کا راستہ کیسے ہموار ہوا؟ اس سلسلے میں کئی عوامل بیک وقت متحرک رہے، ان میں اہم عنصر سرمائے کا بے محابہ استعمال بھی تھا۔
جنرل موسیٰ نے اپنی خود نوشت ’جوان ٹو جنرل‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ تحریک بہت منظم تھی اور اسے وسائل کی کوئی کمی نہ تھی۔ احتجاجی مظاہرین کو یہ سرمایہ کہاں سے میسر آ رہا تھا؟ ایس ایم ظفر نے اس سلسلے میں اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اس زمانے میں طلبہ میں بڑی مقدار میں کالادھن اور سکوٹر تقسیم کیے گئے۔
کسی بھی بڑی تحریک کی کامیابی کے لیے بھاری سرمایہ ضرور درکار ہوتا ہے لیکن یہ عوامی تائید و حمایت کی جگہ نہیں لے سکتا، قدرت اللہ شہاب کے مطابق یہ تائید و حمایت پولی ٹیکنیک کے بے گناہ طالب علم عبدالحمید کی لاش نے فراہم کی۔
وہ لکھتے ہیں کہ جیسے ہی طالب علم کے قتل کی اطلاع ملی: ’مسٹر بھٹو برق رفتاری سے موقع واردات پر پہنچے، انھوں نے مرحوم عبدالحمید کی لاش کو اس کے آبائی گاؤں پنڈی گھیپ پہنچانے کے لیے ایک زبردست جلوس ترتیب دیا، اس طرح راولپنڈی کے گرد و نواح میں ساٹھ ستر میل تک جس جس گلی، گاؤں یا قریہ سے یہ ماتمی جلوس گزرا، وہاں پر صدر ایوب کی قسمت کا ستارہ ڈوبتا چلا گیا۔‘