مینار پاکستان پر عائشہ انور کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تو چلیے جیسا کہا جارہا ہے کہ اس خاتون کی بے حیائی کا نتیجہ تھا لیکن اسی شہر کی رکشہ سوار لڑکیوں کا قصور کیا تھا؟ عائشہ انور نے تو چلو شہرت کی ہوس میں بے حیائی کی، کیا رکشہ سوار لڑکیوں نے ان حرام زادوں کو اشارے کر کے بلایا تھا؟ صدمے کی شدت کے باعث اوباشوں کے لیے نازیبا الفاظ کے استعمال کے لیے معذرت لیکن سچ یہی ہے کہ وہ ایسی ہی گالیوں کے مستحق ہیں۔ لاہور کے یہ دونوں واقعات پاکستانی معاشرے کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ کیس بن گئے ہیں جس پر اس کی انسانیت، حمیت اور فہم کا سارا کچا چٹھا کھل کر سامنے آگیا ہے۔
مینار پاکستان کے سانحے پر دو طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ اول، لاہور ٹک ٹاک اسٹار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے منھ بھر کر فاحشہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں بعض ‘ محققین’ نے فرضی ناموں کے ساتھ اسلامی غیرت کا سہارا لے کر کیا کچھ نہیں کہہ دیا، تو سوال یہ ہے کہ اگر یہ غیرت مند واقعی جذبہ اسلام سے سرشار ہوتے تو اول ہر مسلمان عورت کو اپنی بہن سمجھتے پھر سوچتے کیا وہ اپنی بہن کے لیے ایسی زبان درازی کر سکتے ہیں؟
دوسرا ردعمل نام نہاد ترقی پسندوں کی طرف سے سامنے آیا جنھوں نے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرنے اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ تجاویز پیش کرنے کے بجائے اس قسم کے سوال اٹھائے کہ ثنا خوان تہذیب مشرق کہاں ہیں؟
افسوس اس بات کا ہے کہ ہر دو طبقات کی طرف سے نہ مظلوموں کے ساتھ ایسی ہمدردی سامنے آئی جس کے سوتے خلوص سے اٹھے ہوں اور نہ ایسے جرائم کے تجزیے کی خواہش سامنے آئی ہے جس کی مدد سے سماج کو اس عذاب سے نجات دلائی جاسکے۔ اگر یہ دونوں طبقات حقیقی معنوں میں نظریاتی ہوتے تو ان کے ردعمل میں اس بے رحمی کے بجائے ہمدردی کا جذبہ ہوتا لیکن افسوس کہ دین دار
طبقات ہوں یا ترقی پسند، ہر دو کے ہاں اسی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ یہ طریقہ اصلاح احوال کا نہیں، فتنے کو دیکھ کر خاندانی لڑائیوں کے بدنام جملے ‘ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا’ جیسا ہے۔
لاہور کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاقی انحطاط خطرے کی حدود سے اوپر جا پہنچا ہے۔ ایسے حالات کا تقاضا یہ نہیں کہ اپنے اپنے نظریات کی آڑ لے کر طعن و تشنیع سے کام چلایا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام طبقات سر جوڑ کر بیٹھیں اور سنجیدگی کے ساتھ مرض کی تشخیص کر کے اس کے علاج کی کوشش کریں۔
ان تکلیف دہ واقعات سے تین عوامل کی نشان دہی ہوتی ہے اور ان پر ہی غور کر کے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔
1- معاشرے کی تربیت کا ایک فطری نظام ہوتا ہے، ان واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ نظام وجود نہیں رکھتا یا اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا۔
2- جرائم کے سدباب کا دوسرا فطری طریقہ جزا و سزا کا نظام ہوتا ہے۔ معاشرے کی صورت حال اور اس قسم کے واقعات کی تکرار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کو ریاست کی ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔
3- اس قسم کی صورت حال کی ایک اور وجہ ماہرین سماجیات یہ بتاتے ہیں کہ جب معاشرے کے رائے ساز اسی قسم کا طرز عمل اختیار کر لیں اور ذرائع ابلاغ میں اس کی غیر معمولی تشہیر کرنے لگیں تو سماج میں برائی کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور لوگوں کو یہ طرز عمل اختیار کرنے میں کچھ عیب محسوس نہیں ہوتا۔
لاہور میں پیش آنے والے واقعات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو یہ تینوں عوامل صاف دکھائی دیتے ہیں، اگر معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے طبقات اپنی اناؤں کو کچھ دیر کے لیے سلا کر اس بحران پر غور کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو ممکن ہے کہ ہم لوگ کسی درست راہ پر گامزن ہو جائیں۔