اگست کا مہینہ برصغیر و افغانستان میں تاریخی اہمیت کا حامل مہینہ ہے۔19 اگست 1919ء کو برطانیہ/ انگلستان کی نیم غلامی سے افغانستان کے جرات مند اور فہمیدہ بادشاہ خان امان اللہ خان نے خود مختاری کا اعلان کیا اور اسی دن کو افغانستان کی قومی آزادی کے طور پر منانے کی روایت ڈالی۔
چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو مملکت خداداد پاکستان کی آزادی کا اعلان ستائیس رمضان المبارک کو ہوا اور پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو ہندوستان کے آزادی کے اعلان کے طور پر مناتے ہیں ایران اور چائنا دونوں نظریاتی ممالک ہیں۔ یہ انقلابات اور ترقی کے دن مناتے ہیں۔ ترکی،کمال اتاترک کے دور سے آگے بڑھ کر آزاد جمہوری و اخوانی انقلاب کی راہ پر گامزن ہے۔
بنگلہ دیش کا یوم آزادی 16 دسمبر کو منائی جاتی ہے جب پاکستان میں بنگالی عوام سے نا انصافی اور جدائی پر ماتم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اگست میں بے شمار واقعات ہوئے ہیں مگر08 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کی حالیہ تاریخ میں ایک المناک سیاہ دن ہے ،جب کوئٹہ کی وکلاء قیادت کو ایک منصوبے کے تحت سول ہسپتال کوئٹہ میں تختہ مشق بنا ئے گئے۔
پشتون قوم پرست 12 اگست کو بھابڑہ کے شہدا کے نام پر یوم سیاہ مناتے ہیں،، بلوچ قوم پرست محب وطن پاکستانی نواب ورہنما نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا دن 26 اگست کو مناتے ہیں۔ اگرچہ 26 اگست 1941ءکو تقسیم برصغیر سے پہلے مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی ، اور اگست ہی میں جمال عبدالناصر نے مصر میں فرعونی و فوجی آمریت نے اسلام کے بطل حریت اور قرآن حکیم کے عظیم مفسر و شارح اور جمہوری آزادیوں کے علمبردار سید قطب شہید کو پھانسی دی گئی۔ اگست کے ان تمام واقعات میں سے سردست ھم افغانستان کے جمہوری آزادی پر نظر ڈالتے ہیں۔
افغانستان حریت و قبائیلت کا مرکز رہا اور تاریخ کے تمام ادوار میں قابض و ظالم قوتوں کا مقابلہ کرکے اپنی خپلواکی او آزادی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انگریزوں کی برصغیر پر قبضے و بادشاہی کے دوران بھی افغانستان عملاً آزاد رہا،،اگرچہ انگریز استعمار نے قبضہ گری کے تمام حربے استعمال کئے تاریخ شاہد ہے کہ افغانوں نے ہمیشہ حریت کو ترجیح دے کر اپنے مادر وطن کے تحفظ کا حق ادا کیا ہے۔
ماضی کی طویل تاریخ اور افسانوی کردار کے بیان کے بجائے ہم بیسویں اور اکیسویں صدی کے افغانستان کا جائزہ لیتے ہیں جب علمی نظریات کی پختگی اور ٹیکنالوجی و سائنسی علوم نے اقوام عالم کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تب افغانوں کے لئے ممکن نہ رہا کہ وہ اپنے حریت افغانی اور قبائلیت کوہستانی سے آزاد اور بدلتے ہوئے دنیا کی تبدیلیوں میں پراگندگی و نظریاتی لڑائیوں سے بچ نہ پائے۔
اسلامی دنیا کے جمود اور وقت و حالات کے بدلتے ہوئے ضروریات کے مطابق فطری و الہامی ہدایت ،تعلیمات اور وحی الہی کی تشریحات نہ ہونے کے باعث مسلم امہ،، اقوام عالم کے صف میں نظریاتی و فکری ضعف کا شکار رہا اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نظریاتی اور فکری مباحث میں اپنا وزن کھو بیٹھے، اس اہم تر علمی و نظریاتی نقصان سے سب سے زیادہ افغانستان کا قبائلی و دیہی معاشرہ متاثر رہا۔
معاشروں میں افراط و تفریط کا تناسب اپنے ممکنہ و مناسب حد سے بڑھ جائیں تب المناکی اور خطرناک نتائج مرتب ھوتے ہیں،
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل و اواخر کا مطالعہ کیا جائے تو افغانستان کے دیہی و شہری آبادیوں میں نظریاتی و سماجی بعد پیدا ہو چکا تھا دیہی معاشرے اپنے سادہ وپختہ نظریات و قبائلیت پر مضبوطی سے جمے رہیں اور شہری آبادیاں دنیا عالم کے نظریاتی مباحث اور تبدیلیوں سے متاثر ہو کر ذہنی و فکری انقلاب کی نقیب ٹھہرے۔
افغان دانشوروں نے تاریخ کے اس نازک ادوار میں اپنے معاشروں کی گہرائی سے آزادانہ تجزیہ کرنے اور حالات کی نزاکتوں کے پیش نظر نسخہ شفاء و دوا تجویز کرنے کے بجائے باہم الجھ گئے۔
یوں ہم دیکھتے ہیں اور تاریخ اس کا بے رحم تجزیہ کرتی ہے کہ افغانستان میں سرخ نظریات کی پرچار سے لے کر عملاً افغان ثور انقلاب اور روسی افواج کی مداخلت کا دورانیہ افغان معاشرے کے انتہا پسندانہ ادوار میں شمار ہوتا ہے جب نظریاتی حملہ آوروں نے دونوں اطراف سے روایتی قبائلی معاشرے کو تہہ و بالا کرنے میں عملی و روایتی پختگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہاپسندانہ اقدامات اٹھائیں یوں افغان معاشرہ واضح طور پر دو متضاد اور انتہائی انتہاپسندانہ رویوں میں منقسم ہو کر جلنے اور مرنے پر آمادہ ہو گیا اور 1970 سے لے کر 2020 50 سال یعنی پوری نصف صدی بارود کی آگ میں دونوں نظریات کے حامل گروہوں نے اپنے آپ کو جلانے پر آمادہ کیے ہوئے رکھا ،، اگرچہ نصف صدی بلکہ پوری ایک صدی انیس سو انیس سے لےکر 2019 ء2020 ء تک افغانستان، برطانیہ، مقبوضہ ہندوستان ،سوویت یونین، روس, امریکا ،پاکستان و ایران اور سعودی عرب و ترکی سمیت چائنا, نیٹو و ایساف کے ممالک اور دنیا جہان کے تمام ممالک نے اپنے اپنے نظریاتی ،فوجی، معاشی اور ثقافتی مفادات و ترجیحات کے خاطر کھلم کھلا اور بھرپور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں اور آج بھی افغانستان کے مظلوم ،محکوم اور دربدر خاک بسر عوام نوجوان مرد و خواتین اور بچے اور بوڑھے فریاد کناں ہےکہ آخر کار دنیا عالم نے ہمارے گھرو مسکن کو اپنے نظریاتی و فوجی اور معاشی و ثقافتی مفادات کے حصول کا مرکز کیوں بنایا ہیں؟؟؟افغانستان کے پر افتخار تاریخ کے المناک داستانوں میں سے دو حصے اہم تر ہیں۔
ایک کا تعلق خود افغانوں اور افغان معاشرے سے ہے،
جبکہ دوسرے حصے کا تعلق دنیا عالم کے اقوام ونظریات سے ہیں،،
افغانوں کو طویل جنگ آزادی اور خانہ جنگیوں کے بعد سمجھنا ہو گا کہ
انھیں حالات اور واقعات کا ادراک کرتے ہوئے بدلتے ہوئے دنیا سے ہم آہنگ ہونے اور سیکھنے کی ضرورت ہے، یہ وہی نقطہ ذرین ہے جب مفکر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے انیس سو سینتیس 1937ء میں دورہ کابل کے موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
,,, افغانستان کو ایک ایسے مرد حر کی ضرورت ہے جو انہیں قبائلئت سے نکال کر علمی دنیا سے ہم آہنگ کر سکیں ،،،
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ میں ایک نکتہ اور بھی کہنا چاہتا ہوں ، موسیلینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیا کہ اٹلی کو چاہیے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑ پتی کو پیدا کریں جو اس ملک کے گریبان کو اینگلوسیکسن اقوام کے قرض سے نجات دلا سکے یا کسی نئے کولمبس کو پیدا کرے جو ایک نئے براعظم کا پتہ لگائے،، اگر آپ مجھ سے دریافت کریں تو میں کہوں گا کہ
افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو قبائلی زندگی سے نکال کر وحدت ملی کی زندگی سے آشنا کر سکیں،،،تاریخ کے المناک حقائق، نظریاتی مباحث اور افغانستان کے حالیہ ایک صدی کے فکری کشمکش و نصف صدی کے زور دار جھگڑوں میں سے سب سے اہم اس وقت ایک اجتماعی قیادت و شعور کی بیداری و تشکیل ہے جو افغانوں کو تاریخ کی سحر، نظریات کے بے جاء اسیری اور خود قبائلی سخت گیر ی سے نکال کر آزاد علمی دنیا کی روش سے آشنا کر سکیں،،21 ویں صدی کا اکیسویں سال 2021ء،جہاں عالم انسانیت کے لیے کرونا جیسے موذی و خطرناک وائرس کی وبا لے کر آئی ہے وہی یہ سال افغانوں کے لیے امن و آشتی کا مبہم شمع اور مغموم پیغام لے کر آئے ہیں جسے اب افغانوں نے اپنی خداداد بصیرت اور اعلی ظرفی کے ساتھ پورے روشن چراغ میں بدلنا ہے ،، افغان قیادت کے تمام دھڑوں اور بطور خاص نوجوانوں کے اپنے نظریات کے ساتھ اس وقت ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ دانش و بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کے اس نازک گھڑی میں اپنا کردار درج ذیل فریم ورک کی روشنی میں ادا کریں ،،،
,01:؛
افغانوں کا سب سے اہم مسئلہ ہمیشہ بیرونی قوتوں سے لڑائی اور مذاکرات نہیں رہے بلکہ بین الاافغانی مذاکرات رہے ہیں ،،، افغانوں کی آپس میں اعتماد اور سمجھداری کے مظاہرہ کے لئے بھر پور توانائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے پر اعتماد اور اطمینان کے پیشِ نظر وقت کا مزید ضیاع نہ ہو اور بے سہارہ ولاتعلق افغانوں کا مزید سرخ خون نہ بہے،،،
اگرچہ قریب کے سالوں میں افغان حکومت اور حزب اسلامی افغانستان کے جرات مندانہ قیادت نے بین الاافغانی مذاکرات میں کامیاب پیش رفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قابل قبول اور قابل احترام معاہدہ کیا تھا جس پر آج تک دونوں فریق گلے شکوے کے باوجود قائم ہیں،،
افغانوں کو اپنے صلاحیتوں کے امتحان کے پیشِ نظر بھر پور شرکت اور توانائی کے حامل مزاکرات اور مستحکم و مضبوط حکومت کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے اپنے ممکنہ حیثیت کے تعین،ملت کی خپلواکی او آزادی کے لئے اس امتحان میں اپنے آپ کو کامیاب کرنا چاہیے،
02
سب سے اہم ترین نکتہ اعتماد سازی کا ہے،ایک ایسے فریم ورک اور غالب کی تشکیل،جس کے حدود کار میں تمام بنیادی فریقین اپنے قوم و وطن کے لئے سلامتی اور استحکام کا دروازے کھول سکیں،،
03:؛
افغانوں کے اندر باصلاحیت افراد اور اھل علم و ہنر کی کمی نہیں ہیں،اس وقت افغانستان باہر افغان قیادت کی ایک بڑی تعداد موجود ہیں ان نازک لمحات میں ان کے خدمات حاصل کرنے چاہئیں،،
04؛:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں اور بے اعتمادی کی ایک بڑی وجہ دونوں فریقوں کے درمیان تاریخ کے تناظر میں بدلتے ہوئے دنیا کے حالات و واقعات کا ادراک نہ کرنا ہیں،،
تاریخ کے اس نازک موقع پر دونوں ممالک کے اھل دانش کو اپنے حصے کا فرض ادا کرنے کی جستجو میں کوتاہی نہیں برتی چاھئے،،
05′”:
افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ ملٹری اور سول بیورو کریسی کو یہ تلخ حقیقت واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ہمسائے بہتر کردار ادا کرنے میں ناکام ھوتے ھیں تو انٹرنیشنل اسٹملیشمنٹ اپنے کردار اور کھیل کھیلنے کے لئے آسانیاں محسوس کرتی ہے خدشہ ہے کہ افغانستان آزادی اور طالب علموں کے اقتدار کے نام پر ایک نئے پراکسی وار اور اندرونی خانہ جنگی کی طرف بدبختی سے نہ بڑھیں اس لئے خدارا دونوں ممالک کے درمیان تاریخی حقائق کی روشنی میں اعتماد سازی کے لئے آسانیاں پیدا کی جائے،