صدر ممنون حسین مرحوم سے مصنف مصافحہ کر رہے ہیں، درمیان میں ترکی کے سابق وزیر اعظم احمد داؤد اولو کھڑے ہیں
جناب ممنون حسین نے آنکھیں موند لیں، اب ان سے قیامت کے روز ہی ملاقات ہوگی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایسی شخصیت تھے جنھوں نے خود کو ہمیشہ اپنے آئینی کردار تک محدود رکھا اور امر ہوگئے
ممنون حسین صاحب پاکستان کی قومی زندگی کا ایک عظیم الشان کردار تھے جس آنے والے زمانوں میں روشنی لی جاتی رہے گی۔
میاں محمد نواز شریف نے انھیں پاکستان کے سب سے بڑے منصب یعنی صدارت کے لیے منتخب کیا تو اس کا ردعمل ایک سناٹے کی صورت میں سامنے آیا۔ عام آدمی ہی نہیں صحافیوں تک کے لیے یہ ایک غیر متوقع خبر تھی۔ اس فیصلے کے اعلان سے قبل میں نے اپنے ذرائع سے یہ خبر اپنے اخبار کو اشاعت کے لیے دی تو صدر دفتر کے ذمہ داران اس کی اشاعت سے انکاری تھے۔ ان کے خیال میں یہ ایک بے بنیاد خبر تھی۔ اس خبر کو بڑے بحث مباحثے کے بعد اخبار میں جگہ مل سکی۔ اسی طرح میرے ایک رفیق کار یہ کہہ کر الجھ پڑے کہ یہ ایک غلط انتخاب ہے۔ میں نے سوال کیا کہ یہ غلط انتخاب کیسے ہے تو انھوں نے جواب میں آصف علی زرداری اور پرویز مشرف جیسی شخصیتوں کی مثال پیش کی اور کہا کہ ملک کا صدر ان شخصیات کی طرح کا چالاک اور ہوشیار شخص ہونا چاہئے۔
ہمارے دوست اور ممتاز صحافی سلیم صافی اس فیصلے کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے رہے کہ نواز شریف عشق ممنون میں مبتلا ہیں۔ ان کے نزدیک اس منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت سید غوث علی شاہ تھے۔ غوث علی شاہ سندھ مسلم لیگ کی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے لیکن یہ شاہ صاحب ہی تھے جن کی وجہ سے سندھ مسلم لیگ کبھی ایک مؤثر قوت کی شکل نہ اختیار کر سکی لیکن میاں صاحب نے جب اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اقدامات کی کوشش کی تو انھوں نے مزاحمت کی حتیٰ کہ میاں صاحب کے خلاف مظاہرے بھی کرا دیے۔ اس صورت میں یہ ممنون صاحب ہی تھے جنھوں نے عہدوں کی پروا نہ کرتے ہوئے سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کیا۔ وہ اندرون ایسی جگہوں پر گئے جہاں شاید آج تک بھی کوئی سیاست قائد نہیں گیا ہوگا۔ سندھ کے دور دراز کے گوٹھ دیہات اور گلی محلوں تک وہ پہنچتے تھے اور وہاں انتہائی نچلی سطح پر کارکنوں اور عوام سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔
ممنون صاحب اہم ترین سیاسی کردار اس زمانے میں نکھر کر سامنے آیا جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت برطرف کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ میاں صاحب پر کراچی میں جب ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلا تو اس کی کارروائی، میاں صاحب سے کارکنوں کے رابطوں اور عالمی اور قومی ذرائع ابلاغ تک پارٹی کا مؤقف پہنچانے کے انھوں نے انتہائی جرات سے کام لیا۔ اس مقدمے کے زمانے میں انھوں نے اپنی عمر کی پروا نہ کی اور گھنٹوں انتک کام کیا۔ اسی دوران میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور جیل میں انھیں اس شرط پر وزارت کی پیش کش کی گئی کہ وہ مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑ دیں جسے انھوں نے چھوٹتے ہی مسترد کردیا۔
ممنون صاحب مالی معاملات اور لین دین کے معاملات میں بڑے کھرے اور سخت تھے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے، اسٹاک مارکیٹ کے ایک بڑے بروکر نے انھیں نوٹوں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس بھجوایا۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہےتو بتایا گیا کہ انھوں نے اپنے بھائی(یعنی ممنون صاحب)کی صرف سرمایہ کاری کی تھی، یہ اس سرمایہ کاری کا منافع ہے۔ ممنون صاحب نے یہ سنا اور بروکر کے دوست کو ڈپٹ کراس پیغام کے ساتھ واپس بھجوا دیا کہ تم نے اس بار غلط بندے کا انتخاب کیا ہے۔
وہ ہمیشہ جیب میں رومال رکھتے تھے اور ٹشو پیپر کااستعمال کم سے کم کیا کرتے تھے، ان کی صدارت کے زمانے میں ایک بار کسی قریبی دوست نے ان سے کہا کہ ممنون صاحب! رومال زیادہ محفوظ نہیں ہوتا آپ ٹشو پیپر استعمال کیوں نہیں کرتے؟ یہ بات سن کر ممنون صاحب سنجیدہ ہو گئے اور کہا کہ ایک ٹشو پیپر کی مالیت پچاس سے ساٹھ پیسے ہوتی ہے، ذرا اندازہ کیجئے رومال نہ رکھنے والے شخص کو ایک دن میں کتنے ٹشو پیپر استعمال کرنے پڑیں گے؟ خاص طور پر اس صورت میں جب ان کی خریداری بھی قومی خزانے سے ہوتی ہو۔ میں نے ایوان صدر کے اپنے پانچ برس کے عرصے میں شاید ہی انھیں ٹشو پیپر استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہو۔
اپنے عرصہ صدارت کے دوران میں انھوں نے ہمیشہ جمہوری اقدار کی سربلندی کو پیش نظر رکھا اور سویلین سپرمیسی کے لیے آواز بلند کی۔ اپنے عرصہ اقتدار میں انھوں نے سیکڑوں تقاریر کیں۔ انھوں نے اپنی کم و بیش ہر تقریر میں کسی نہ کسی انداز میں میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ جمہوریت کے بارے میں ان کی یہی کمٹمنٹ تھی کہ میاں نواز شریف ہر اہم فیصلے سے قبل ان سے مشورہ کیا کرتے۔ ان کی یہ روایت ممنون صاحب کے صدر بننے سے پہلے بھی تھی اور صدر بننے کے بعد۔
صدر منتخب ہونے کے بعد ممنون صاحب نے میاں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
میاں صاحب، آپ میرے پہلے بھی قائد تھے اور اب بھی قائد ہیں۔ ممنون صاحب نے اپنے قول کی ہمیشہ لاج رکھی۔ آصف علی زرداری کے بعد وہ پاکستان کے بعد عوہ واحد سویلین صدر تھے جنھوں نے اپنی ٹرم مکمل کی اور صدر رفیق تارڑ کے بعد کے علاوہ واحد صدر تھے جنھوں نے اپنی حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کی۔