ذہنی و فکری تبدیلی کے اشارے سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی شخصیت اور کردار کی روشنی میں!!! دنیا عالم کے بدلتے تناظر میں کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کی حالت زار میں اکیسویں صدی ایک پیراڈائم شفٹ ہے جس نے ایک طرف عالمی وبا کے ساتھ تقریبا تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا تو دوسری طرف کئی نئے شعبوں کو زندگی بخشی۔اسی دوران ہم دنیا کے سیاسی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی منظر نامے میں بھی تبدیلی کے آثار دیکھتے ہیں۔یہ ایک بنیادی کائناتی اصول و ضابطہ ہے کہ امامت کی باگ ڈور اسی قوم کے ہاتھ میں رہے گی جو اس دور کی ذہنی و فکری تبدیلی کے اشاروں کو سمجھ کر آئندہ زندگی کے لیے حقیقت پر مبنی لائحہ عمل طے کر کے مستحکم انداز میں آگے بڑھنے کے مواقع انسانوں کے لئے قابلِ الحصول بنانے کی محنت شاقہ کرتے ہیں ۔
قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے جس کا پیغام ازل تا ابد موَثر رہے گا تا ہم اس کی تشریحات اور معاشی و معاشرتی ترقی و خوشحالی کے لئے میکنزم میں لائحہ عمل تشکیل دینے اور اسے پختگی عطاء کرنے کا مشن انسانی ذہن کی پختگی کے ساتھ بڑھتی رہے گی اور آنے والے دور میں اس کے اثرات پچھلے دور سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
ذوالحج کا عشرہ اوّل یعنی ایام حج مبارکہ خصوصی طور پر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد دلاتا ہے اور انسانیت کے لئے سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی فکر مندی و دماغ سوزی کی یاد و تعبیر نو ان دنوں میں تازگی بخشنے اور سوچ وفکر کی قوتیں مجتمع کرنے کے ساتھ ان کی عظیم الشان شخصیت کے عظمت و رفعت اور بلند پروازی کو عیاں کرتی ہے اور ہر بار ہر سال یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت عام ہوتی ہےکہ انسانیت سوچیں کہ قرآن کریم نے کیوں اس نبی کو اس قدر اعلٰی درجہ عطا کیا کہ تا ابد اس کی یاد شعائراللہ کی صورت میں ہر سال حج مبارکہ پر غور وفکر کا سامان پیدا کرتی رہے گی؟ اور انسانیت کے لئے مشترکہ مشن و افکار کشید کرتے رہیں گے، یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی ذات و شخصیت اور انسانیت کےلئے ان تشنہ پہلووَں کے بارے میں غور و غوض کرنا ہیں جن کی سیرابی کے لیے قرآن پاک میں کہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گفتگو اپنے والد سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کے ساتھ بیان کی جاتی ہے،تو کہیں نمرود جیسے بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بیان کرتے دکھایا جاتا ہے،کہیں مغضوب قوموں کی بخشش کے لیے جبرائیل سے بات کرتے ہیں ،کہیں آگ گلزار بنتے نظر آتی ہے تو کہیں جان سے پیارے بیٹے کی قربانی کی کہانی سنائی جاتی ہے،کہیں کعبۃ اللہ کی بنیادیں اُٹھاتے ہوئے عاجزی سے ایسی دعا کرتے ہیں کہ جس کی مقبولیت سے آج کی دنیا تک فیضیاب رہتی ہیں۔ ہزاروں سال پہلے انسان کے مسائل اور مشکلات کیا تھے اور آج 21 ویں صدی کے اوائل میں مادی ترقی و خوشحالی کے نصف النہار پر وحی الہٰی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و دانش مندی انسانوں کے لئے کیا ممکن ہے اسی غرض کے لئے قرآن پاک نے ان کی شخصیت اور کردار کے ان پہلووَں کو بلاوجہ بے نقاب نہیں کیا بلکہ اس کا مقصد اسی پختہ ایمان،توکل،صلہ رحمی،عاجزی،رحم دلی ،حلم،اللہ کی طرف رجوع اور اللہ کی بارگاہ میں آہ و زاری اور تحمل کو پیدا کرنےکی ضرورت پر زور دینا ہے جو ہر معاشرے کے ہر دور کی ضرورت ہے۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے ان شعا ئراللہ کو دوبارہ زندہ کیا تاکہ آنے والے دور کا انسان اپنی شخصیت کے پیچ وخم اسی عظیم نبی کے سیرت کی روشنی میں استوار و زندہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ ان بنیادوں پر استوار شخصیت مرد و عورت اور بچہ و بزرگ آج کے معاشرے میں کیسے تخلیق و تشکیل نو ہوسکیں گا اور پھر اسی شخصیت سازی کے نتیجے میں روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو کیسے ممکن العمل ہوسکے گا۔ یہ آج عالمی انسانی سوسائٹی میں سب سے اہم سوال ہے اور اگر اہل مذہب اپنے سادہ لوحی سے اس کا ممکنہ طور پر پائیدار و ثمر بار جواب و لائحہ عمل نہیں دے پائیں گے تو بلاشبہ سوسائٹی کی تعمیر و توسیع کے ساتھ مذہب و تمدن کے بنیادوں پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور دنیا میں انسان لمحہ موجود میں حکمت عملی اور فکری اپروچ اختیار کرنے کے باعث اسی سوال کے جواب کے تلاش میں زندگی کی تشکیل و تعبیر نو چاہتے ہیں اس لئے عیدالاضحی کے مبارک موقع پر روایتی تصور و وہم سے اوپر اٹھ کر مالک ارض و سماء کے کلام الٰہی اور ختم نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی دینا تشکیل و تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور انسانی ذہانت و قابلیت اور استعداد و صلاحیت کے فکری و عملی بنیادوں پر استوار سماجی اور سیاسی شعور و ادراک تیغِ دست قاتل کے ہاتھوں غارت گری کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔