کیا منگل قومی اسمبلی کا ہنگامہ جمہوری پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ کر صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنا تھا؟ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ خاطر جمع رکھے، ایسے لوگوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا
یہ واقعہ کوئٹہ ایئرپورٹ کا ہے جس کے مختصر لاؤنج میں جمشید دستی اتراتے پھر رہے تھے۔ ہوا یوں کہ انھیں دیکھ کر دو ایک نوجوانوں نے ان کے ساتھ مصافحہ کیا اور سیلفی بنائی۔ اس کے بعد ان کے دل میں جانے کیا آئی کہ گھوم پھر کر لوگوں سے ملنا شروع کر دیا۔ بس، یہیں ان سے غلطی ہوگئی۔ ایک نوجوان جس کی طرف مصافحہ کے لیے انھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا، اس نے جوابی طور پر ان کی طرف ہاتھ بڑھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ جس شخص کو پارلیمنٹ کے مقدس ایوان میں بی ہیو(Behave) کرنا نہیں آتا، اس سے ہاتھ ملانا مجھے زیب نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں اگر کچھ لوگ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہلڑ بازی پسند کرتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسے بے ہودگی قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہیں۔ منگل کے روز تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی میں جو رویہ اختیار کیا، وہ محض مایوس کن ہی نہیں بلکہ ایک جرم ہے۔ بظاھر تو اس طرز عمل کا مقصد یہ تھا کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بات نہ کرنے دی جائے۔ اس طرز عمل سے یہ عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے ہم خیالوں کی طرف سے کچھ پزیرائی ہو جائے لیکن عملی طور پر اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ عوام اس طرز عمل کو غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس کے ذمے داروں کو کار مملکت کے لیے نا اہل خیال کرتے ہیں۔
کوئٹہ میں عوام نے جمشید دستی کا ہاتھ اس لیے جھٹک دیا تھا کہ چند روز قبل انھوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین کے خطاب کے دوران سیٹیاں بجائی تھیں۔ منگل کے ہنگامے میں قومی اسمبلی میں کوئی جمشید دستی دکھائی نہیں دیا بلکہ پی ٹی آئی کے اراکین کی ایک بڑی تعداد جمشید دستی بنی ہوئی تھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ وزیر تعلیم شفقت محمود بھی ان ہی غیر سنجیدہ اور غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں مصروف پائے گئے تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ان کی باڈی لینگویج سے ان کی شرمندگی کا اظہار بہر حال ہو رہا تھا۔ شفقت محمود اور دیگر چند شرمندہ ارکان کے علاوہ بڑھ بڑھ کر حملے کرنے اور گالیاں بکنے والے اراکین اگر ہمت رکھتے ہیں تو بازار میں نکل کر دیکھ لیں، انھیں خوب اندازہ ہو جائے گا کہ عوام ان کی ہلڑ بازی سے کس طرح نفرت کرتے ہیں۔
لکھ کر رکھ لیا جائے کہ منگل کے طرز عمل نے نہ صرف حکومت کو کمزور کیا ہے بلکہ جمہوری پارلیمانی نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ اسمبلی میں ٹٹ فار ٹیٹ ہوگا یعنی حکومت ایوان کو سنجیدگی سے چلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ان اوچھے ہتھ کنڈوں کے ذریعے پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ کر صداری نظام کا راستہ ہموار ہو جائے گا تو ایسے لوگ خاطر جمع رکھیں، ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔