یہ رمضان کورونا کی غضب نالیوں کی نذر ہو گیا لیکن اس تمام غضب ناکیوں پر بھاری صدمہ فاروق قیصر کی رخصتی کا ہے۔ کل علیہا فان، جو ذی روح اس دنیا میں آیا ہے، ایک دن اسے یہاں سے جانا ہے لیکن اگر جانے والے کا بسیرا دلوں میں ہو تو اس کی کسک کچھ سوا ہوتی ہے۔
اس عہد کے بچوں کی دل چسپی کے ذرائع ہزاروں ہیں لیکن ہماری نسل پتلی تماشا دیکھ کر بڑی ہوئی۔ انکل سرگم کیا تھے، ماسی مصیبتے کس کی نمائندگی کرتی تھیں، بونگا بخیل کون تھا، رولے کی خوبی کیا تھی، چھوٹتے ہی یہ سوال اگر کسی سے پوچھا جائے تو ممکن ہے،زبانیں گنگ ہو جائیں لیکن یہ خاموش زبانیں بھی بتائیں گی کہ یہ کردار ایسے تھے جو ان کے دل میں بستے تھے۔
فاروق قیصر کے کردار لوگوں کے دل میں کیوں بستے تھے، اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ عمومی روایت کے مطابق یہ کردار کسی اجنبی معاشرے سے مستعار نہیں لیے گئے تھے بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی خوبیوں، خامیوں، ہمدردی، سادگی، معصومیت، عیاری، دھوکے بازی اور احساس عدم تحفظ کی نمائندگی کرتے تھے جو اس معاشرے کی ہر خوبی اور خامی، یعنی ہر ایک پہلو کی نمائندگی کرتے تھے۔ آٹھ برس کے پاکستانی بچے سے لے کر اسی نوے برس کے بزرگ نے جب خود اپنا یہ کردار ٹیلی ویژن کے اسکرین پر دیکھا تو ہر ایک کو اس میں اپنا پرتو دکھائی دیا اور انھوں نے اسے اپنے دل میں جگہ دے دی۔ گویا فاروق قیصر نے اپنے کرداروں کے ذریعے معاشرے کو اس خوش اسلوبی سے آئینہ دکھایا کہ وہ کسی پر گراں بھی نہیں گزرا اور لوگوں نے یہ آئینہ دیکھ کر جتنی توفیق ہوئی ہوگی، اپنی کچھ نہ کچھ اصلاح بھی ضرور کی ہوگی۔
فاروق قیصر کے ان کرداروں کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔ فاروق قیصر کا پتلی تماشا، سرگم ٹائم اور دیگر پروگرام اس زمانے میں سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے جب پرائیویٹ پروڈکشن کا کوئی تصور نہیں تھا اور حکومت کسی قسم کی تنقید بھی برداشت نہیں کیا کرتی تھی لیکن فاروق قیصر کا کمال یہ تھا کہ وہ اپنے ان معصوم، چالاک اور سادہ دل کرداروں کی زبان سے ایسی باتیں کہلوا دیا کرتے تھے جو حالات حاضرہ پر براہ راست تنقید کادرجہ رکھتی تھیں لیکن ان پر گرفت نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہی فاروق قیصر کا کمال تھا۔ مرحوم اس سلسلے میں اپنے فن کی جس معراج پر پہنچے، اس کی کوئی دوسری مثال دستیاب نہیں ہے۔
فاروق قیصر کا تیسرا کمال تنقید اور تہذیب کے ساتھ ساتھ تفریح بھی تھا جو خالص بھی تھی اور با مقصد بھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں اور ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے زیادہ بہتر طریقے سے پر کریں کیوں کہ آج ہمارے معاشرے میں فاروق قیصر کے اسلوب کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔