عمران خان نے اپنے خطاب میں ایک بات مناسب کہی کہ جیسے دنیا میں ہولوکاسٹ پر بات نہیں ہو سکتی بالکل اسی طرح ہم بھی توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت نہیں دیں گے، پوری مسلم دنیا اس کے لیے مل کر کام کرے گی اور میں مسلم دنیا کو اس بات پر متحرک کروں گا لیکن اسی سانس میں انھوں نے ایک غلط بیانی بھی کردی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن نے آج کی ہڑتال کی حمایت کی ہے تاکہ ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جاسکے۔ یہ بات سو فیصد غلط ہے۔ صرف مسلم لیگ ن نہیں ملک کی کسی بھی مین اسٹریم سیاسی جماعت نے اس تحریک لبیک کی حمایت کی اور نہ ہڑتال کی۔ قومی جماعتوں نے اس سلسلے میں نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ان کا یہ طرز عمل خود عمران خان اور ان کی جماعت کے مقابلے میں نہایت ذمے دارانہ تھا۔ 2017ء میں خادم رضوی صاحب نے جب فیض آباد میں دھرنا دیا تھا تو اس وقت عمران خان نے اس دھرنے کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں خود اس دھرنے میں جا کر بیٹھ جاؤں۔ حزب اختلاف عمران پر الزام لگایا کرتی ہے کہ وہ کذب بیانی سے کام لیتے ہیں، بدقسمتی سے وہ اپنے طرز عمل سے ہمیشہ الزام پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔
لاہور میں اتوار کو جو افسوس ناک واقعات رونما ہوئے ہیں، عمران خان نے اس میں ن لیگ کو بلا وجہ گھسیٹ کر ثابت کیا ہے کہ وہ موجودہ قومی بحران کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں یا اتنی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ اپنے مخالفین کی طرف محض ایک اصول کی بنیاد پر ملنے والی خاموش تائید کو اپنی قوت میں بدل سکیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے والے عام طور ناکام رہتے ہیں۔
عمران خان کی تقریر اور موجودہ بحران کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو کنواں دشمنوں کے لیے کھودا جاتا، عام طور پر خود ہی اس میں گرنا پڑتا پے۔ تحریک لبیک بھی ایک ایسا ہی کنواں ہے جو ن لیگ اور جمہوری قوتوں کے لیے کھودا گیا تھا، اس عمل میں تحریک انصاف پوری طرح شریک تھی، اب یہی جماعت اس کے کنارے پر جا کھڑی ہوئی ہے اور حالات اسے گرا دینے کے درپے ہیں۔
عمران خان اس کنویں میں گرنے سے ایک ہی صورت میں بچ سکتے ہیں اگر وہ جمہوری عمل پر صدق دل سے ایمان لا کر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور قوم کو متحد کریں، دوسری کوئی صورت ایسی نہیں جس میں بچنے کا ذرا سا بھی امکان ہو۔