جس کے کئی دن کے شہرے تھے، وہ ہو گیا۔ شوکت ترین نے وزارت کا حلف اٹھا لیا اور اس اثنا میں کوئی معجزہ بھی نہیں ہوا، یعنی کوئی یو ٹرن نہیں ہوا اور جیسے کیا جارہا تھا، بالکل اسی طرح شوکت ترین وزارت خزانہ جا بیٹھے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ غیب کا علم کون جانتا ہے لیکن گزشتہ ڈھائی، تین برس کی جیسی روایت ہے ، اس سے زیادہ مختلف ہونے کی پیشین گوئی شاید ہی کوئی کرے۔
اصل میں شوکت ترین کابینہ میں بعد میں آئے، ان سے پہلے کابینہ میں ایک بار پھر ردوبدل ہوا اور وزرا کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی گئیں۔
کابینہ کوئی ائیر ٹائٹ کمپارٹمنٹ نہیں ہوتا جس میں کوئی ایک بار داخل ہو جائے، باہر نہیں آ سکتا اور کوئی باہر سے اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود اس حکومت کے دور میں جو کچھ ہوا ہے، وہ منفرد ہے۔
اس حکومت کے سربراہ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے بہت دعوے کیے تھے کہ معیشت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کے ضمن میں ان کی تیاری مکمل ہے لیکن جیسے کار مملکت دینے والوں نے ان کے ہاتھ میں دیا، ساری قابلیت اور ساری تیاری کا بھانڈا بیچ چوراہے کے ٹوٹ گیا۔
اب یہ جو آئے روز ردو بدل ہوتی ہے، دراصل یہ اس حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
کابینہ میں تبدیلیوں کا پہلو تو یہ ہے، اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے اور یہ عین فطری ہے کہ ہر شخص ہر چیز کے بارے میں نہیں جانتا لیکن اگر اسے کوئی ذمہ داری سونپ دی جائے تو وہ اپنی محنت، فطری ذہانت اور کام کرنے کے جذبے سے کام سیکھ بھی سکتا ہے اور کارکردگی بھی دکھا سکتا ہے لیکن یہ بھی اسی حکومت اور اس کے سربراہ کا امتیاز ہے کہ وہ کسی کو کام کرنے ہی نہیں دیتے، تجربہ حاصل ہی نہیں کرنے دیتے۔ ہمہ وقت تبدیلی کی تلوار لوگوں کے سر پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ ایسی حکومت کے ذمہ داران اگر کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہوں تو نہیں دکھا سکتے۔ ایک شعر ہے
یہ چمن یوں ہی مہکتا رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں بولی کر اڑ جائیں گی
اہل ذوق ذرا سی ترمیم کر کے اس حکومت پر اسے منطبق کرنے میں آزاد ہیں۔