کہتے ہیں، کیچ مکران کے جنگلوں میں کوئی بزرگ رہتے تھے، علم و فضل کے پہاڑ لیکن بسبب زہد و تقویٰ کے مٹی کے ساتھ مٹی۔ بدقسمتی سے وہ زمانہ ایسا تھا جس میں نہ ہر گلی محلے میں کوئی انگلش میڈیم اسکول تھا اور نہ شہر شہر جامعات بذریعہ ڈگری علم کا نور فروخت کیا کرتی تھیں، لہٰذا اس مقصد کے لیے جنگلوں کی خاک چھاننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہی نیک مقصد تھا جس کی خاطر کوئی درویش گرتا پڑتا اسی جنگل میں آ نکلا جس میں وہ بزرگ دھونی رمائے بیٹھے تھے۔ درویش نے بزرگ کا حلیہ، بود و باش اور علم کا حلم دیکھا تو جانا کہ وہ منزل پر آ پہنچا۔ اب وہ درویش دن رات اس بزرگ کی خدمت میں رہتا، کبھی ان کے پاؤں دھو کر پیتا اور کبھی انھیں یقین دلاتا کہ اگر اس بد نصیب دنیا میں کوئی آفتابِ رشد و ہدایت باقی رہ گیا ہے تو بس، وہ آپ کی ذاتِ والا صفات کے سوا اورکوئی نہیں۔ کچھ دن تو اس بزرگ نے خاموشی کے ساتھ یہ سب جھیلا لیکن ایک روز اِن کا صبر جواب دے گیا اور انھوں نے اپنی جھونپڑی نیز گدڑی درویش کے حوالے کی اور یہ کہتے ہوئے کسی ان دیکھے راستے پر چل دیے کہ اس ویرانے میں اب ہنگامہ بہت ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ ایسی ہی واردات میرے عزیز بھائی عبد المتین اخونزادہ نے ڈاکٹر عارف کے ساتھ کر دی ہے۔کوئی روایتی بابا ہوتا تو وہ بھرّا کھا کر اٹھتا اور جنگل میں غائب ہو جاتا۔بزرگ کہا کرتے تھے کہ سچے گرو کی پہچان یہ ہے کہ وہ جلد ہار مان کر میدان نہیں چھوڑتا،اپنے چیلے کو مایوس کرتا ہے اور نہ اس کا ہاتھ چھوڑتا ہے بلکہ اپنے صبر کو خطرے میں ڈال کر بھی اس کی بات رکھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا معاملہ ایسے ہی بزرگوں جیساہے یعنی ایسے بزرگوں کی جب کوئی ان کی تعریف کرتا ہے تو اُن کے کان خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا معاملہ اپنی جگہ لیکن لگتا ہے کہ اخونزادہ صاحب کا معاملہ بھی کیچ مکران کے درویش جیسا ہے جو اس عہد نا سپاس گزار میں ایک حقیقی عالم کے مقام و مرتبے سے آگاہی کے باوصف اس کے اعتراف اور عقیدت کے اظہار سے کبھی نہیں چوکتے جب کہ ڈاکٹر صاحب کسی زیرک گرو کی طرح اپنے ایک اپنے مخلص دوست اور قدر دان کا ہاتھ چھوڑنے کے روا دار نہیں ہوتے۔ گویا یہ معاملے ہیں دل کے انھیں دنیا سے مت جوڑ۔
ایک دوسرے کی قدر، محبت اور تعریف کرنے والوں کا معاملہ اِن پر چھوڑ کر اب ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ قرآنی شعور کے ارتقا اور اس کی مادی افادیت کے موضوع پر مجھے بات کرنی ہے اور وہ بھی اس تناظر میں کہ ان اصولوں کی روشنی میں ہمارا نیا جمہوری بیانیہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے ایک اور حکایت میرے ذہن میں آ گئی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم حکایت کی طرف بڑھیں، تھوڑی سی بات اصل موضوع پر کر لیتے ہیں۔
نیا یا پرانا جمہوری بیانیہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارے عہد کا یہ ایک مقبول سوال ہے جس کے جواب میں ان دنوں بہت کچھ کہا جا رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قومی اہداف جن کا تعین ہمارے بزرگوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا، ان کی افادیت اور اہمیت کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔ گویا یہ وہی انداز فکر ہے جس کے لیے کہا جاتاہے کہ ہر تعمیر کے لیے تخریب ضروری ہے۔ کیا ہمارا ملک اور قوم واقعی اس منزل پر آ چکے ہیں جس کے بعد تخریب کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں رہتی؟ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سوال ہے جس کا جواب ڈاکٹر عارف جیسے عالم اور فلسفی ہی دے سکتے ہیں لیکن تاریخ عالم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب کوئی قوم اہداف کا تعین کر کے اپنی اجتماعی خواہش کا اظہار کردے تو وہی اس کا بیانیہ قرار پاتا ہے، اس کے بعد نئے پرانے کی بحث غیر متعلق ہو جاتی ہے۔
ہماری قوم 1940ء، 1947ء، 1949ء اور 1973ء میں یکے بعد دیگر ے قرارداد پاکستان، قیام پاکستان اورقرارداد مقاصدکی منزلوں سے گزرنے کے بعد ایک متفقہ آئین پر متفق ہوکر اس بحث سے آگے نکل چکی ہے۔ میرے استدلال پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ پھر قرآنی شعور کا کیاہوا تو گزارش ہے کہ یہ ہمارے ہی دستور کا امتیازہے کہ اس میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے جمہور پاکستان کو اس کی نیابت دے دی گئی، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی قرآنی شعور ہوسکتا ہے؟
اب رہ گیا اس کے مادی حاصلات کا سوال تو قرآنی شعور کی بحر میں غواصی کرنے والے جانتے ہیں کہ اس راہ پر چلنے والوں کی اگر خواہش نہ بھی ہو تو دنیاانھیں مل کر ہی رہتی ہے۔ اس لیے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر 1973ء کے دستور کے بارے میں رنگا رنگ پھول جھڑیاں چھوڑنے کے بجائے ہم خلوص نیت سے اس کی منشا کو پورا کرنے کی فکر کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں کسی نئے بیانئے کو مرتب کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، نہ ہمارے درمیان مادی مفادات کا کوئی جھگڑا رہے گا اور نہ اختیارات کی تقسیم کا کیوں کہ ان تمام مسائل کا حل اس دستور میں پیش کر دیا گیاہے۔ویسے اگر ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بھٹکنے کی خواہش ہمارے دل میں چٹکیاں لے رہی ہے تو نیا بیانیہ بنا کر بھی دیکھ لیں، ہماری مثال اس جانور کی سی رہے گی جس کی قسمت میں دائرے میں گھومنا لکھ دیا گیاہے، ایک نئے بیانئے کا شوق پورا کر کے دیکھ لیں، کچھ دنوں کے بعد پھر ایک نئے بیانئے کا سوال اٹھ کھڑا ہو گا۔ اب یہ آپ کی مرضی پر ہے کہ ایک بیانئے کے بعد ایک نئے بیانئے کی تلاش میں کولہو کا بیل بننا ہے یا ریاست کے حکیم حاذق یعنی دستور کا نسخہ استعمال کر کے جس کے تمام اجزا ہمارے پاس موجود ہیں، اپنے مسائل حل کرنے ہیں، فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم۔(بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں قرآنی شعور اور نیا جمہوری بیانیہ کے موضوع پر قومی سیمینار میں پڑھا گیا)۔