• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home معیشت زراعت

پاکستان میں آٹے کا بحران: جب لوگ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوئے

پاکستان میں گندم بحران: جب 25 سے زیادہ افراد کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دیا گیا: بی بی سی کے لیے خصوصی تحقیقی رپورٹ

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
April 2, 2021
in زراعت
0
پاکستان میں آٹے کا بحران: جب لوگ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوئے
63
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

 

ADVERTISEMENT

پاکستان میں اُن دنوں گندم کی فی من قیمت 13 روپے 14 آنے تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ اس قیمت پر تو کیا، کچھ زیادہ پر بھی گندم مشکل سے ہی ملتی تھی۔

روزنامہ‘زمیندار‘ نے 29 جنوری 1953 کو لکھا کہ کوڑیوں کے مول والی یہ جنس اِن دنوں اگر ملتی ہے تو صرف پہنچ رکھنے والوں کو ہی اور وہ بھی 25 سے 30 روپے فی من۔

گویا یہ ایک ایسا بحران تھا جس نے پاکستانی عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے لیکن سوال یہ تھا کہ یہ بحران پیدا ہوا کیسے؟

بحران پیدا کیوں ہوا؟

5 فروری 1953 کو لاہور چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک ہنگامی اجلاس میں اس صورتحال پر غور کیا گیا۔

چیمبر کے عہدیدار صورت حال پر تفصیلی غور کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اِن مسائل کی بنیادی وجہ حکومت کی غلط تجارتی پالیسی ہے اور حکام نہ مسائل کو سمجھتے ہیں اور نہ ان کے حل کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چیمبر کے عہدیداروں کے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کی غلہ منڈیاں جو اب تک مشرق میں اناج کا گہوارا سمجھی جاتی تھیں، اب ان میں خاک اُڑ رہی ہے کیوںکہ اناج کی تجارت پر حکومت کے کنٹرول نے کاروبار کا خاتمہ کر دیا۔

اب یہ تجزیہ کس قدر درست تھا یہ تو کوئی ماہرِ معاشیات یعنی اکانومسٹ ہی بتا سکتا ہے مگر اناج کی نقل و حرکت اور کاروبار پر سرکاری کنٹرول کے نتیجے میں کس قسم کے اثرات سامنے آرہے تھے، اس کا اندازہ 3 فروری 1953 کو شائع ہونے والی ایک خبر سے ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

جب حکومت الیکشن کمیشن کو چیلنج کرتی ہے: بھٹو کے قدم پھر کبھی جم نہ سکے

کیا پاکستانی حزب اختلاف میں انتشار ماضی کی طرح اس بار بھی ’ٹریپ‘ ثابت ہو گا؟

چھ نکات، بھٹو، یحییٰ اور مجیب

بحران کس قدر سنگین تھا؟

اس خبر میں کہا گیا تھا کہ گندم کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام نے مکئی اور باجرے کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی مختلف منڈیوں سے ان اجناس کی نقل و حرکت میں اضافہ ہو گیا اور بعض مقامات پر ان اجناس کے ملنے میں بھی دشواری کی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں۔

ان اطلاعات پر حکومت نے ان کی بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی۔ اخبار نے لکھا کہ حکومت کے اس فیصلے کے بعد غلہ منڈیوں میں کاروبار ختم ہو گیا اور ان مقامات پر یومیہ مزدوری کے ذریعے گزر اوقات کرنے والے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔

گندم

غذائی اجناس کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی بے روزگاری اپنی جگہ لیکن گندم سمیت دیگر غذاؤں کی کمی کی وجہ سے جس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی، اس زمانے کے اخبارات کے مطالعے سے اُس کی بڑی پریشان کن تصویر سامنے آتی ہے۔

5 فروری 1953 کی ایک اطلاع کے مطابق غذائی قلت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ بعض علاقوں میں لوگوں نے درختوں کی جڑیں اور گھاس پھوس ابال کر پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔

اُس زمانے کے ایک بڑے صحافی محمد سعید نے اپنی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ میں لکھا ہے کہ اس قسم کے واقعات سرگودھا اور لائل پور(موجودہ فیصل آباد) کے اضلاع میں پیش آئے اور اِس نوعیت کی خبریں تواتر سے سامنے آئیں جس سے غذائی اجلاس کی کمی کا معاملہ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آیا۔

یہ صورت حال شہروں سے دور کم ترقی یافتہ دیہی علاقوں میں بھی تھی لیکن شہری علاقوں میں غذائی قلت کے مظاہر بہت حد تک مختلف اور انداز میں سامنے آئے۔

2 جنوری 1953 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق حکومت نے غذائی قلت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے آئندہ 25 افراد سے زیادہ کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دیا اور ایسی صورت میں تین سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک وقت دینے کا اعلان کیا گیا۔

حکومت نے کیا اقدامات کیے؟

اِن دونوں قسم کی خبروں سے غذائی قلت کے اثرات کے پھیلاؤ کا اندازہ ہوتا ہے لیکن ان حالات سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ متعلقہ حکام نے اس سلسلے میں کوئی جامع حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے ظاہری اور نمائشی اقدامات پر توجہ زیادہ دی۔

اس سلسلے میں جو فوری قدم اٹھایا گیا، اس کے تحت غذائی اجناس کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں نقل و حرکت بند کر دی گئی جس کی خلاف ورزی عام طور پر ہوتی اور اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزائیں دی جاتیں۔ اس طرح غذائی قلت کے علاوہ عمومی سیاسی بے چینی بھی فروغ پانے لگی۔

گندم کے کھیت

اس موقع پر عوامی بے چینی کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا۔ اس کا تعلق جعل سازوں اور جرائم پیشہ عناصر سے تھا جو ہر بحران میں عوام کی مجبوری اور پریشانی سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اس زمانے میں بڑے پیمانے پر ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ جعلی راشن کارڈ بنانے کا دھندا عروج پر پہنچ چکا ہے اور جعل ساز دو روپے کے عوض جعلی راشن کارڈ بنا کر فروخت کررہے ہیں۔

ان دنوں ان جعل سازوں کی گرفتاری کی خبریں بھی اکثر دیکھنے میں آئیں۔ اس موقع پر پولیس بھی انتہائی نچلے درجے پر بہت فعال دکھائی دی جس کا اندازہ 15 جنوری 1953 کو شائع ہونے والی ایک خبر سے ہوتا ہے جس میں بتایا گیا کہ لاہور میں ایک شخص صرف دس من آٹے کی چور بازاری کرتے ہوئے گرفتارکر لیا گیا لیکن اس تمام بحرانی عرصے میں اجناس کی بین الاضلاعی نقل و حرکت کی اطلاعات اور گرفتاریوں کی خبریں شہ سرخیوں میں شائع ہونے کے باوجود کبھی یہ اطلاع سامنے نہیں آئی کہ ان پابندیوں کی خلاف ورزی خوراک کے کتنے بڑے ذخیرے کے ساتھ کی جا رہی تھی اور گرفتار ہونے والے کون لوگ تھے۔

ان اطلاعات کے سامنے آجانے سے یقیناً اندازہ ہو جاتا کہ اس مکروہ کاروبار کے پیچھے کون ہے لیکن اس پورے عرصے میں ایسی کوئی اطلاع سامنے نہ آسکی۔

‘عوام روٹی پکانے کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جائیں گے‘

پالیسی سازی کی سطح پر اس چیلنج سے کس انداز میں نمٹنے کی کوشش کی جارہی تھی، اس کا اندازہ وفاقی سیکرٹری مالیات سعید حسن کے ایک بیان سے ہوتا ہے جو 11 فروری 1953 کو شائع ہوا۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومت ملک میں بیکری سسٹم کے نفاذ پر غور کر رہی ہے جس کے تحت بیکریوں کو خصوصی راشن کارڈ جاری کیے جائیں گے جن کے ذریعے وہ گندم یا آٹا حاصل کر سکیں گے۔ ان بیکریوں کی ذمہ داری ہو گی کہ عوام کو پکی پکائی روٹی فراہم کریں۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

سیکرٹری مالیات نے کہا کہ حکومت اس نظام کی مسلسل جانچ پڑتال کرتی رہا کرے گی تاکہ روٹی کے معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس طرح یورپ اور امریکہ کے بعد پاکستان پہلا ملک بن جائے گا جس سے عوام گھر میں روٹی پکانے کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جائیں گے۔

حکومت اس اعلان میں کتنی سنجیدہ تھی؟ یہ اندازہ اس حقیقت سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ بنا ہی نہ تھا، پاکستان میں پکی پکائی روٹی کا پہلا منصوبہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عمل میں آیا۔

سیکریٹری مالیات کے بیان سے اس بحران سے نمٹنے کے ضمن میں سرکاری حکام کے انداز فکر کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ حکومت اور اس کے ذمہ داران کی طرف سے مختلف مواقع پر جو بیانات جاری کیے گئے، وہ اسی مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اسی طرح 3 فروری کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا ایک اجلاس ہوا۔ اگلے روز شائع ہونے والی خبر کے مطابق اجلاس میں اتفاق پایا گیا کہ گندم کے بحران سے نمٹنے کے لیے وہی طریقے اختیار کیے جائیں گے جو دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اختیار کیے تھے۔

حکومت نے آئندہ برس گندم کی زیادہ پیداوار دینے والے کسانوں کو انعامات دینے کی تجویز پر بھی غور کیا۔ خبر کے مطابق اجلاس کے شرکا کے نزدیک اس بحران کی وجہ یہ تھی کہ گذشتہ برس چونکہ بارشیں کم ہوئی تھیں، اس لیے فصلوں میں کمی ہوئی۔

گندم

وزیر اعلیٰ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تحریک پاکستان کے جذبے کے تحت اس بحران کا سامنا کریں۔

حکومت نے فیصلہ کیا کہ گندم کی قلت کے خاتمے کے لیے 15 کروڑ روپے کی گندم مزید خریدی جائے گی جبکہ 100روپے سے کم ماہانہ آمدنی والے خاندانوں کی سہولت کے لیے سستی دکانیں کھولی جائیں گی۔ اگلے روز اخبار نے لکھا کہ حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے کسی بڑے فیصلے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔

‘طاقتور طبقہ ہر بحران سے فائدہ اٹھا جاتا ہے‘

ستر کی دہائی میں بھی غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوئی جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے راشن ڈپو کا نظام قائم کیا جہاں قطاروں میں لگ کر لوگ راشن کارڈ دکھا کر کنٹرول نرخوں پر آٹا اور چینی حاصل کرتے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے چیف کوآرڈینیٹر مرزا عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ یہ ایک نامناسب پالیسی تھی۔

مرزا عبد الرحمان کے خیال میں اس پالیسی سے پی پی پی نے اپنی جماعت کے لوگوں کو نوازا اور عوام کے مسائل میں کوئی خاص کمی واقع نہ ہو سکی۔

آٹے اور چینی کے علاوہ بناسپتی گھی کی قلت اسی زمانے میں پیدا ہوئی تو بھٹو صاحب نے یہ معاملہ بھی اسی طرح نمٹایا۔

مرزا عبد الرحمان کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں اپنے حلیفوں اور پسندیدہ سیاسی عناصر کے ضمن میں مختلف حکومتوں کی طرف سے اس سے ملتی جلتی پالیسی اختیار کی گئی، اس طرح جو عناصر آٹے کی افغانستان سمگلنگ میں ملوث ہوتے ہیں، انھیں کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔

گندم

یہ معلومات اور تجزیہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برس ہوں یا موجودہ زمانہ، مختلف مصلحتوں کی وجہ سے ہمیشہ ایسا طاقتور طبقہ موجود رہا ہے جس کے جرائم سے آنکھیں بند کرلی گئیں اور اس ساری صورتحال کے مضر اثرات حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو برداشت کرنے پڑے۔

1953 کے غذائی بحران کے موقع پر خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم تھے۔ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ بریگیڈئر عبدالرحمن صدیقی نے اپنی کتاب ’فوج اور سیاست‘ میں لکھا ہے کہ اس بحران کی وجہ سے وزیر اعظم کی تضحیک عام تھی اور انھیں ان کے نام کے وزن پر ’ہاظم الدین‘ کہا جانے لگا تھا جبکہ محمد سعید نے لکھا ہے لوگ انھیں عام طور پر ’قائد قلت‘ کے نام سے پکارا کرتے۔

‘مارشل لا آتے ہی بحران حل ہو جاتے ہیں‘

1953 میں لاہور میں لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے اور 1958 میں پورے ملک میں لگائے جانے والے مارشل لا سے قبل ملک میں غذائی قلت کی اس صورتحال کا بھی خاصا کردار تھا لیکن مارشل لا کے نفاذ کے بعد غذائی قلت کا راتوں رات خاتمہ ہو گیا اور اس سلسلے میں کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔

اسی طرح ستر کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی کمی میں بھی راشن ڈپوسسٹم نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن جیسے ہی مارشل لا حکومت آئی، یہ نظام ختم کر دیا گیا۔

1977 کے مارشل لا کے بعد آنے والی حکومتوں کے دور میں مختلف مواقع پر غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہوئی جس میں جنرل مشرف کا زمانہ بھی شامل ہے۔

آٹا

ان تمام بحرانوں کے پس پشت وہی ایک ہی طرح کے عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں، یعنی مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ کرنے میں ناکامی، بحرانوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان اور طاقتور عناصر کی غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں ماہ و سال تو بدلتے رہے لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے رہے جس کی ایک اور علامت مسئلے کی بنیاد پکڑنے کے بجائے گندم کی دھڑا دھڑ درآمد ہے۔

محمد سعید کے بقول 1953 میں حکومت نے اتنی گر کر غذائی امداد مانگی کہ کراچی کی بندرگاہ پر اترنے والی گندم کو جن اونٹوں پر لادا گیا، ان کے گلے میں ‘تھنک یو امریکا‘ یعنی شکریہ امریکہ کی تختیاں لٹکا دی گئیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں بھی بنیادی مسئلے پر توجہ دینے کی بجائے گندم کی درآمد پر زور دیا جا رہا ہے۔

1953 میں گندم کے بحران کے بارے میں محمد سعید لکھتے ہیں اس زمانے میں دو مسائل ایک ساتھ پیدا ہوئے، ایک تو گندم کی قلت تھی، دوسرا بحران انڈیا کی طرف سے کوئلے کی فراہمی میں بندش سے پیدا ہوا۔

کوئلے کی وجہ سے ریلوے انجن چلانے کے لیے ایندھن کا مسئلہ پیدا ہوا تو پاکستان میں یہ سوچ عام ہو گئی کہ کوئلے کی کمی کو کیوں نہ فاضل گندم جلا کر پورا کر لیا جائے۔ یہ سوچ گندم کی فراوانی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس بحران میں بھی گندم کے اتنے ذخائر موجود تھے کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹننٹ جنرل اعظم خان کی ایک ہی دھمکی کے بعد گندم کی لہر بحر ہو گئی اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہاں غذائی قلت کبھی تھی ہی نہیں۔

یہ بی بی سی پاکستان کے اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56467205

 

Tags: آٹاپیپلز پارٹیراشن ڈپوفاروق عادلگندممارشل لا
Previous Post

ڈرامے کا ڈراپ سین: خدا حافظ حسینہ معین

Next Post

جب حکومت توقعات پر پورا نہیں اترتی

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
جب حکومت توقعات پر پورا نہیں اترتی

جب حکومت توقعات پر پورا نہیں اترتی

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

محشر خیال

خیبر پختونخوا
محشر خیال

خیبر پختونخوا بجٹ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں؟

عامر لیاقت حسین
فاروق عادل کے خاکے

عامر لیاقت ایسے کیوں تھے؟

لوڈ شیڈنگ
محشر خیال

لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز

پاکستان
محشر خیال

پاکستان کا دارالحکومت پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی سازش

تبادلہ خیال

نشہ
تبادلہ خیال

بلوچستان میں نشے کی تباہ کاری

کشمیر
تبادلہ خیال

کشمیر میں بھارت کے انسانیت کشی اور ڈرامہ کرفیو

پنشنرز
تبادلہ خیال

پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟

عمران خان
تبادلہ خیال

حکیم سعید ، ڈاکٹر اسرار اور عمران خان

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.