عام آدمی جو حکومت بناتا ہے، وہ حکومت آدمی کی توقعات پہ پورا کیوں نہیں اُترتی۔ آیئے اس پہ غور کرنے کے لیے درج ذیل تحریر پڑھیں۔
’’ہم نے جمہوریت میں عام آدمی کی اہمیت کا تذکرہ کیا کہ فی زمانہ حکومت بنانے کا اختیار عام آدمی اور اس کی اکثریت کو مل گیاہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹ کی طاقت سے عام آدمی کی اکثریت کسی بھی سیاسی پارٹی کو برسراقتدار تولے آتی ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ انتخابات جیتنے والی پارٹی حکومت میں آکر ان کے مسائل حل کر دے گی۔ لیکن تجربے نے بتایا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ عوام کے ووٹوں سے حکومت بنانے والی سیاسی پارٹی عوام کی اُمنگوں پہ پورا نہیں اترتی۔ نتیجے میں عوام مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ شکوہ کریں تو کس سے۔ حکومت ان ہی کی لائی ہوئی ہوتی ہے۔ فیصلہ اور رائے ان ہی کا اور ان ہی کے ذریعے نافذ ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد عام آدمی یا عوام کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہوتا۔ اب وہ اپنی ہی حکومت کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ حکومت کی ڈائنامکس ایسی ہوتی ہے کہ جو وعدے وعید کرکے جو خوشنما سنہرے باغ دکھا کر پارٹی حکومت میں آتی ہے، وہ اپنے سارے، وعدے فراموش کرکے ان مسائل میں الجھ جاتی ہے جو مسائل حقیقت کا لبادہ اوڑھ کر اس کے سامنے آجاتے ہیں۔ اگر اتنا بھی ہو جاتا تو شکوے شکایت کا موقع بے محل ہی ہوتا۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد، سیاسی لیڈروں کا حکمران بن جانے کے بعد روّیہ ہی نہیں، مسائل کے دیکھنے کا زاویہ نظر ہی بدل جاتا ہے۔ اقتدار و اختیار پا جانے کی لذّت حکمران کو عام آدمی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔ عوام کے ووٹوں سے حکمرانی کے لطف و مزے اٹھانے والا اب خود کو عوام سے بلند و برتر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد ایسے خوشامدیوں کو دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور اس کی پالیسیوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں۔ چناں چہ ایسے حکمراں کو وہ ادارے بھی کھٹکنے لگے ہیں جو اس پر تنقید و احتساب کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ میڈیا ہو یا عدلیہ یا خود اپنی پارٹی کے وفادار اور مخلص اراکین ہوں۔ یہ کہنے اور بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ہمیں یہ جاننے سے دلچسپی بھی نہیں۔ ہمارا فوکس یہ ہونا چاہیے کہ آخر عام آدمی یا عوام ایسی پارٹی یا ایسے لیڈر کو اقتدار میں لاتے ہی کیوں ہیں جو خود اپنے وعدوں اور عام آدمی کے خوابوں کو حقیقت نہ بنا سکیں۔ ہمارے خیال میں اس کی وجوہ یہ ہیں:
۱۔ عام آدمی عقل سے نہیں جذبات سے سوچتا ہے اور جذبات کے ریلے میں بہہ جاتا ہے۔
۲۔ عام آدمی پر لیڈر کا سحر طاری ہو جاتا ہے۔ نتیجے میں حقائق سے اس کا رشتہ ناتا ٹوٹ جاتا ہے۔
۳۔ عام آدمی اپنے لیڈر کی پرستش کرتاہے۔ ایسی پرستش کے اسے اپنے لیڈر کے عیوب اور خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ لیڈر کے ہر عیب کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور جب حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہو جائے تو وہ لیڈر کے عیبوں کا جواز پیش کرنے لگتا ہے۔
۴۔ عام آدمی اپنی پسند و ناپسند کے معاملے میں متعصّب ہوتا ہے۔ وہ اپنے تعصّب یا اپنی سیاسی عصبیّت کو چھوڑنے پر کسی طرح تیار نہیں ہوتا۔ کیا اس کی وجہ اس کا ناخواندہ یا نیم خواندہ ہونا ہے، نہیں، مشاہدہ بتاتا ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی سیاسی عصبیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کا روّیہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے جو ناخواندہ یا نیم خواندہ عام آدمی کا ہوتا ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ ایسا تعصّب آدمی کے اندر کیوں اور کیسے پیدا ہو جاتا ہے؟)
۵۔ عام آدمی یا عوام طاقت اور تبدیلی چاہتا ہے۔ لیڈر کے زور بیاں کی طاقت اور تبدیلی کی امید و امکان ہی اسے لیڈر کا گرویدہ بناتے ہیں۔ لیڈر جو وعدے کرتا ہے، جو خواب دکھاتا ہے، عام آدمی لیڈر کے دیے گئے تاثر کو سچ جانتا ہے اور لیڈر کے جھانسے میں باآسانی آجاتا ہے۔ سیاست تاثر کو یقینی بنانے کا کھیل ہے اور یہی کھیل جمہوری ملکوں میں کھیلا جاتا ہے۔
۶۔ عوام یا عام آدمی کی حاکمیت اس گمان پر قائم ہے کہ بار بار کے انتخابات کے ذریعے عام آدمی اپنے غلط فیصلے کی اصلاح کرلے گا۔ اپنے ملک کو چھوڑیے پڑوسی ملک اور سپر پاور امریکا میں عام آدمی نے اپنی اصلاح کی یا بدترین لیڈروں کو حکمرانی کے لیے چُن لیا۔ یہ بھی غور طلب معاملہ ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عام آدمی یا عوام کی حالت اس وقت تک برباد ہی رہے گی جب تک حکومت بنانے کا کلیتاً اختیار اس کے پاس رہے گا۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راہ نجات کیا ہے؟ ایک آدمی ایک ووٹ سے حکومت کا چُنا جانا قوم کی تقدیر کو نہیں بدل سکتا تو پھر آپشن کیا ہے؟ایک آپشن تویہ ہے کہ عام آدمی کی سیاسی تربیّت کی جائے۔ اس کے شعور کی سطح کو تعلیم کے ذریعے بلند کیا جائے تاکہ وہ صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ یہ ایک معقول حل ہے لیکن یہ کرے کون؟ دوسرا حل یہ ہے کہ عام آدمی سے ووٹ کا اختیار لے کر تعلیم یافتہ طبقات کو حکومت چننے کا حق دے دیا جائے۔ لیکن تجربہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ عام آدمی اور تعلیم یافتہ آدمی میں فرق بال برابر کا رہ گیا ہے۔ بلکہ ملکی اور قومی مفادات کو جتنا نقصان تعلیم یافتہ آدمی سے پہنچتا ہے، عام آدمی سے نہیں پہنچتا۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ اس سوال پر ہم سب کو سوچنا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ زندگی کے دیگر تمام شعبوں کی طرح ہمارا سیاسی ادارہ بھی ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس ادارے سے ہمارا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ ہمیں انتخابات کے نتائج پر یقین و اطمینان نہیں ہوتا۔ چناں چہ کہنے کو جمہوریت ہے تو سہی لیکن جمہوریت اقدار سے محروم ہے۔ جمہوریت کی روح اختلاف کرنے کا حق ہے، تنقید و احتساب کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن کیا ہم میں اتنی رواداری اور تحمّل ہے کہ ہم دوسروں کو اختلافات و احتساب کا حق دے سکیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ہمیں اختلاف و احتساب کے آداب معلوم ہیں؟ کیا تنقید ہماری تعمیری ہوتی ہے؟ کیا ہماری اختلافی آرا میں خیر خواہی کے جذبات شامل ہوتے ہیں؟ یا جو کچھ ہم مُنہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں، اس میں نفرت، غُصّہ اور بیزاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے جمہوری اقدار و آداب سے محروم ہوکر جمہوریت اپنے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ ایسی جمہوریت کو ہم کب تک سینے سے لگائے رکھیں گے؟ یا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب جمہوریت کو حقیقی معنوں میں جمہوریت بنانے کی فکر کریں گے؟