ملتان میں ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے قومی سیاست کی تاریخ میں کئی اعتبار سے اہم ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ان جلسوں میں پہلی بار ایسے موضوعات پر آواز بلند کی گئی جو اس سے پہلے کبھی زیر بحث نہیں آ سکے تھے۔ حزب اختلاف کی تحریک کا یہ پہلو قومی سیاست کاایک اہم سنگ میل ہے لیکن سیاسی بیانیے کے اعتبار سے ملتان ملتان کے جلسے میں کوئی نئی بات نہیں کہیں گئی۔ تمام قائدین نے وہی پرانی باتیں ہی کہیں۔ نواز شریف کا خطاب ہوتا تو ممکن ہے کہ کوئی نئی بات ہوتی۔
لیکن اس کے باوجود اس شہر میں تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اس وجوہات دو ہیں۔
پہلی وجہ آصفہ بھٹو زرداری کی سیاسی شخصیت کی حیثیت سے ان کی رونمائی ہے۔ آصفہ اس سے قبل بی بی سی سے ایک انٹرویو کے ذریعے سامنے آ چکی تھیں۔ اس جلسے میں شرکت ایک نیا واقعہ ہے جو پیپلز پارٹی کے مستقبل کے تعلق سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ آصفہ کی تقریر اگرچہ مختصر تھی لیکن ان کے سیاسی کیرئیر کی ابتدا اچھی ہو گئی ہے۔
اس جلسے کی اصل بات وہ مزاحمت ہے جو پی ڈی ایم اور خاص طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے گزشتہ کئی روز تک جاری رکھی۔
پی ڈی ایم کی اس تحریک میں ابھی تک اسی مزاحمت کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ عمران حکومت کی بے تدبیری اور بدانتظامی کی وجہ سے یہ کمی بھی پوری ہوگئی۔
گزشتہ چند روز کے دوران میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں حکومت کی طرف سے عاید کی گئی پابندیاں توڑنے کے لیے جس جوش و خروش سے کئی روز تک مظاہرے کیے اور گرفتاریاں دی ہیں، حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر یہ واقعات دیکھ کر تیس چالیس برس پرانی سیاست کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں جو سیاسی کارکنوں میں جوش و جذبہ پیدا کر کے اس کی کامیابی کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں ملتان کا جلسہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے اور موجودہ سیاسی جدوجہد میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور مولانا فضل الرحمٰن کا یہ جملہ تادیر یاد رکھا جائے گا کہ بتاؤ تمھاری بات چلی یا ہماری، سیاسی قائدین کے ایسے جملے حکومت کو اعتماد سے محروم کرنے کے ضمن میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔