پاکستان میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب جمہوریت پر روشن خیال ترقی پسندی افضل سمجھی گئی اور اسلام پر صوفی اسلام۔صوفیا اور ان کے ورثا کہتے ہی رہ گئے کہ قبلہ،مسلک صوفیا اور اسلام میں فرق بس نام ہی کاہے، اصل میں دونوں ایک ہیں لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟ اصحاب طبل و علم کے میں منھ میں جو آئی، وہ کہہ گزرے اور نیکریں پہنا کر سڑکوں پر بیٹیاں دوڑانے کے شوق میں اپنے الٹے سیدھے تصورات کو علمی کمک پہنچانے کے لیے ادارے بناتے چلے گئے۔ ان میں ایک ادارہ تو مجلس صوفیا یا اس سے ملتے جلتے نام کی کسی تنظیم کا تھا، چوہدری شجاعت حسین صاحب جیسے مرنجاں مرنج بزرگ جس کے صدر بنائے گئے۔توقع یہی ہوگی کہ چوہدری صاحب جیسی بھاری بھرکم شخصیت اور ان کے اثرو رسوخ سے حسب ِ خواہش ماحول تشکیل پا جائے گالیکن چوہدری صاحب بھی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں تھے، صدر وہ ضرور بنے لیکن آلہ کار نہ بن سکے لہٰذا تھوڑے عرصے تک مجلس صوفیا کے نام سے کچھ سرگرمی رہی، اب اس کا نام بھی کسی کی یاداشت میں بھی نہیں ہے۔دوسرا ادارہ اقبالؒ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ،ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (آئی آر ڈی) کے نام سے قائم کیا گیاجو ابتدائی ناکامی کے بعد ایک بڑی یونیورسٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے ذہن میں شاید ایوب خان کا زمانہ اور اُن کے عہد کی جانے والی اسلام کی تعبیر تھی، ڈاکٹر فضل الرحمن جس میں ان کے ممد و معاون بنے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے آدمی تھے، علم کا سمندر تھے لیکن اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود علما کا سامنا نہ کر پائے، ایوب خان کو ڈبو کر جہاں سے آئے تھے،واپس وہیں لوٹ گئے۔تاریخ کا سبق چوں کہ یہ ہے کہ اس سے کچھ نہیں سیکھا جاتا،لہٰذا اسی روایت کے مطابق اسی قسم کے مقاصد کے لیے اقبالؒ سے ان کا نام مستعار لے کرایک ادارہ بنا دیا گیا تاکہ روشن خیال ترقی پسندی کی روشنی میں اسلام کی نئی تعبیر کی جاسکے۔وقت کے حکمرانوں نے یہ کا م بڑے ’خلوص‘ اور احتیاط سے ہی کیا ہوگا لیکن حادثہ یہ ہوا کہ اس کی قیادت ڈاکٹرممتاز احمد جیسے حقیقی دانش ورکے حصے میں آگئی۔ڈاکٹر صاحب ماڈرن بھی تھے اور روشن خیال بھی لیکن لکیر کے فقیر، لائی لگ اور حکمرانوں کے اشاروں پر چلنے والے نہیں تھے، لہٰذا انھوں نے اسلام کو اسلام سمجھا اور اقبالؒ کو اقبال۔ممکن ہے کہ یہ گستاخی ڈاکٹر صاحب کے گلے کا پھندا بن جاتی لیکن وقت اور حالات ایسے بدلے کہ لوگوں کو نشان عبرت بنا دینے کی قدرت رکھنے والوں کو پلٹ کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملی اور وہ خود ہی تاریخ کا رزق بن گئے۔
اب اتنے برسوں کے بعد لگتا ہے کہ اُس آدھے ادھورے کام کی تکمیل کا وقت آگیا ہے کیوں کہ اقبالؒ کے نام سے منسوب اس عظیم ادارے میں ایسے لوگوں کو علم کے موتی بانٹنے کا موقع ملنے لگا ہے جن کے نزدیک اقبالؒ اس قسم کے شعر کہا کرتے تھے ؎
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اقبالؒ کے نام پر پیش کیے گئے، ان نام نہاد اشعار پر چونکنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حادثہ اسی آئی آرڈی میں پیش آیا ہے جہاں ایک نئے اقبال اور ایک نئے اسلام کی دریافت ہونا تھی۔ ماضی میں چوں کہ اس ادارے کو ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر منظور احمد جیسے بزرگ دانش وروں کی سرپرستی حاصل رہی ہوگی، اس لیے یہ ’کارِ خیر‘ انجام نہیں دیا جاسکا لیکن اب حالات ساز گار ہیں، کیوں کہ ان بزرگوں کی وراثت اب ایسے ذہین لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ٹوٹکوں سے علاج کوبھی سائنس سمجھتے ہیں، لہٰذا اس قسم کی تک بندی بھی اقبال سے منسوب کر دی جائے تو کیامضائقہ ہے؟
اس قصے میں اصل واقعہ رہا جاتا ہے۔ اصل میں ہوا یہ یوم اقبالؒ گزرنے کے بعد آئی آرا ڈی کو خیال آیا کہ اس بار وہ حاضری لگوانے سے رہ گیاہے چناں چہ اقبالؒ اور مسلم نوجوان کے عنوان سے ایک سیمی نار کا اہتمام کیا گیا جس میں انجینئر ڈاکٹر اکرم شیخ نامی کسی شخص کو کلیدی خطبے کے لیے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کر لیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ صاحب کسی زمانے میں وفاقی کابینہ کے رکن بھی رہے ہیں، رہے ہوں گے لیکن کوشش کے باوجود ان کا کوئی تعارف دست یاب نہیں ہو سکا۔اپنے کلیدی خطبے میں بڑے فاضلانہ انداز میں انھوں نے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا اور کہا کہ آج اس ملک میں جس قسم کی سیاست ہو رہی ہے، اس کے اسباب اقبال بہت پہلے بیان فرما گئے ہیں، یہ کہا، اس کے بعد وہ اشعار پڑھے جو اوپر درج کیے گئے ہیں۔ اس پر سیمی نار میں موجود ایک صاحبِ علم اٹھے اور فاضل مقرر کو یاد دلایا کہ حضور! اشعار کے نام پر جو کچھ آپ نے پڑھا ہے، اس کا اقبالؒ سے کوئی تعلق نہیں۔یہ اعتراض فاضل مہمان خصوصی نے صدمے کی کیفیت میں سنا لیکن سنبھل گئے اور فرمایا کہ چلیں کوئی بات نہیں اقبالؒ کے نہیں ہوں گے لیکن جو بات میں کہنا چاہتا ہوں،اُس کی تائیدصرف ان ہی اشعار سے ہوتی ہے۔
اہل سیاست پر نفور کے بعد ان کی تقریر کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ انھوں نے سورۃ الانعام کی ایک آیت کے حوالے سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی رو سے جمہوریت کو گمراہی قرار دیا ہے اور ہم چلے ہیں ملک میں جمہوریت کا نفاذ کرنے، حالانکہ سیاق و سباق کے مطابق اس آیت کا نظام حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔
جمہوریت سے نمٹنے کے بعد وہ سیاست دانوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پیپلز پارٹی کے نصب العین طاقت کا سرچشمہ عوام کو بدترین شرک قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد وہ شریفوں پر کرم فرما ہوئے اور اپنی عادت کے مطابق ایک بار پھر کسی شاعر کو اپنا سہارا بنایا اور انکشاف کیا کہ کسی شریف نامی شخص کے بارے میں قیام پاکستان سے قبل حفیظ جالندھری نے یہ اشعار کہے تھے۔ اب نہیں معلوم اشعار کے نام پر سنائی گئی وہ چیز کس کے زور قلم کا شاہ کار ہے؟کوئی عبقری ہی ہوگاکیوں کہ اس میں ایک معیوب لفظ بھی ا ستعمال کیا گیا ہے، لغت کے مطابق یہ لفظ جس پر منطبق ہوتا ہے، اس کا کام طوائف کے کاروبار کا فروغ ہے۔معاشرے میں یہ لفظ گالی کے طور پر مستعمل ہے۔حفیظ جیسے خوش کلام سے توبعید ہے کہ وہ ایسے الفاظ کو اپنے کلام میں جگہ دیں۔ گالی والے یہ”اشعار“ انھوں نے ماہرین اقبالیات اور خواتین کی موجودگی میں بڑے دھڑلے سے سنا کر دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ دیکھئے آج شریف کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔ اقبال کے نام پر غلط شعر کی نشان دہی کرنے والے بزرگ اس بارخاموش رہے، شاید اس لیے کہ جواب انھیں پہلے ہی معلوم تھا کہ ترانہ پاکستان کے خالق کے نام سے سنائی گئی ہفوات کے بغیر ان کی بات مکمل نہ ہو پاتی۔
قوم کو مبارک ہو کہ اب چمن میں دیدہ ور پیدا ہو گیا ہے جو دین کو بھی سمجھتا ہے، اقبال اور قائد اعظم کو بھی نیز آئین اور جمہوریت کی گمراہیاں بھی اس پر روشن ہیں۔ مزید مبارک ہو کہ اب ایسے دیدوہ وروں کو اقبال اور ملک کی عظیم جامعات کے پلیٹ فارم بھی میسر آگئے ہیں، لہٰذااب اس قوم کی گمراہی اور خرابی کے دن تھوڑے ہیں۔