آج یہ ہوا کہ اس ملک کے بڑے فن کاروں کے نام کے ساتھ جناب طارق جمیل کا نام بھی لیا گیا۔ ذکر کسی بڑے سرمایہ دار کے ہاں شادی کا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے فن کاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے، ان جوہریوں میں ایک جناب طارق جمیل بھی تھے۔ معروف خطیب جنھیں آج ہمارے دوست برادرم نجم ولی خان نے انٹرنینر بھی کہہ دیا۔
جناب طارق جمیل کی شخصیت، بصیرت، کرادر اور خاص طور پر موجودہ حکمرانوں کے بارے میں ان کے اعتدال سے بڑھے ہوئے محبت کے جذبات سامنے آنے کے بعد وہ مسلسل زیر بحث تھے۔ ان کے دینی علم پر بھی بات ہو رہی تھی اور اپنے خطابات میں وہ جو روایتیں پیش کرتے ہیں، ان کے ان درست ہونے کے بارے میں بھی بات کے دائرے میں وسعت پیدا ہوئی لیکن شادی کی اس تقریب میں شرکت اور مبینہ طور پر ایک بڑی رقم کی صورت میں وعظ کا عوضانہ قبول کرنے کی اطلاعات یا افواہوں پر لوگوں کو زبان کھولنے کا مل گیا۔
طارق جمیل صاحب کی ایک شناخت تبلیغی جماعت بھی ہے۔ اس سلسلے میں بعض حلقوں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ تبلیغی جماعت انھیں قبول نہیں کرتی یا ان کی طرف سے شہرت کے ذرائع کے استعمال پر اس دینی جماعت کے بزرگوں میں ان کے بارے میں کراہت کا رویہ ہے لیکن حمکت کے تحت اس بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے جو قابل فہم ہے۔
یہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے دین سے رغبت کرنے والے حلقوں میں مقبول رہنے والی یہ شخصیت اب بڑی حد تک متنازع ہو چکی ہے اور حالیہ دنوں میں کسی دولت مند کی شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد ان کے بارے لوگوں کی تنقید میں اضافہ ہو گیا ہے۔
دین سے تعلق اور خاص طور پر اس کی تبلیغ سے متعلق کوئی شخصیت اگر اس طرح کے اجتماعات میں شرکت کرے، خواہ یہ شرکت فن کاروں کے ساتھ ہی ہو تو اس میں ہرج کی کوئی بات نہیں۔ اللہ کے ہاں نیت اور حسن عمل دیکھا جائے گا، یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ان کے ساتھ اور کون شریک ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مبلغ کو دعوت دین کا موقع ملے اور وہ اس سے فایدہ نہ اٹھائے تو یہ کوئی مناسب بات نہیں۔
پھر نامناسب بات کیا ہے؟ نامناسب بات یہ ہے کہ جو شخص تبلیغ دین کو اپنی پہچان بنائے، اسے چاہئے کہ پھر وہ رؤسا کے ہاں ہی دین کہ بات کرتے ہوئے نہ پایا جائے بلکہ اس کارویہ سب کے ساتھ یکساں ہو، ایسا نہ ہو کہ جیسا بعض وڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ غریبوں کا کوئی ہجوم ان سے مصافحے کی سعادت حاصل کرنا چاہے تو وہ کراہت سے ہاتھ جھٹک دے۔ اس کارویہ سب کے ساتھ ایک سا ہونا چاہئے جو دین کا اصل مزاج ہے۔
اگر کوئی ایسا شخص حکومت کے ایوانوں میں میں دین کی دعوت لے کر جائے تو اس میں بھی حیرت اور خرابی کی کوئی بات نہیں لیکن اگر وہ آنکھوں دیکھے مکھی نگلے اور غلط کاروں کو تقوے اور طہارت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے لگے تو اس سے بھی وہ خود کو متنازع بنا لے گا۔
کچھ اسی قسم کارویہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بسنے والے طارق جمیل پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر وہ ان گذارشات کو ایک ہمدرد کے دل کا دکھ سمجھ کر غور کریں گے تو یقین ہے کہ بہتری کی صورت ضرور پیدا ہو گی۔
فاروق عادل
براہ کرم پہلا لنک کلک کیجیے اور درج ذیل followکیجئے
@Farooqadil
@Aawaza1