اسوقت کورونا وائرس نے پوری دنیا میں قیامت ڈھائی ہوئی ہے، پچاس ملین مریضوں اور 12 لاکھ سے زائد اموات کے ساتھ یہ اس وقت دنیا کی صحت و معیشت کے لئے خطرہ اوّل بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت سینکڑوں تجربہ گاہوں نیں لاکھوں نہیں تو ہزاروں سائنسدان اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
ایسے میں خوش خبری کی پہلی بوند سے سرشار ہونے کا مزا ہے ہی کچھ اور۔ امریکی فارماسیٹکل کمپنی فائیزر اور جرمن کمپنی بائیوٹیک نے انکی مشترکہ طور پر تیار کردہ کورونا وائرس کی ویکسین کے تیسرے اور آخری مرحلے کے تجربات میں حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔
فائیزر اور بائیوٹیک پہلی دواساز کمپنیاں ہیں جن کی مشترکہ طور پر تیارکردہ کورونا وائرس ویکسین کی وسیع پیمانے پر تجرباتی استعمال کے کامیاب نتائج ہی نہیں بلکہ ابھی تک کوئی قابل ذکر نقصان دہ اثرات بھی سامنے نہیں آئے پیں۔ کمپنی ماہ رواں کے آخر میں امریکی حکام سے اس ویکسین کے استعمال کی ہنگامی منظوری کی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
کمپنی کے اعلان کے مطابق انکی ویکسین کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ اس کے استعمال کے بعد 90 فیصد سے زائد افراد میں کوروناوائرس سے بچاؤ میں کامیاب رہی ہے آج کے دن کو سائنس اور انسانیت کے لئے ایک عظیم دن قرار دیا۔
فائزر کے چیئرمین اور سی ای او البرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ “میں سمجھتا ہوں کہ ہم تارک سُرنگ کے آخر میں روشنی کی کرنیں دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عوامی صحت اور دنیاکی معیشت پر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو کہ گذشتہ ایک صدی کی سب بڑی طبی سائنس کی دریافت ہے۔
یہ اعلان ایسے موقعے پر ہوا ہے جب پوری دنیا میں دواساز کمپنیاں اور تحقیقاتی ادارے اس وائرس جو اب تک بارہ لاکھ سے زائد جانیں لے چکا ہے سے حفاظت کے لئے کوئی محفوظ ویکسین ایجاد کر کے اس بین القوامی وباء کو ختم کرنے کے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کوئی ویکسین جو 75 فیصد بھی کار آمد ہو بہت بڑی بات ہو گی، جبکہ وہائٹ ہاؤس کے کورونا وائرس کے مشیر ڈاکٹر انتھونی فوکی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ویکسین جو 50 یا 60 فیصد بھی کارگر ہو وہ قابل قبول ہو گی۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر پیٹر ڈوربک کا کہنا ہے کہ “90 فیصد کارگر ویکسین کی دریافت ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ اس لئے ہمیں تمام نتائج کو غیر جانبدارانہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اسکے باوجود یہ ایک خوش آئند خبر ہے”
امریکی حکام و سائنس دانوں کی خواہش ہے کہ ویکسین 2021 کے ابتدائی ششماہی میں عوام تک پہنچے کے لئے تیار ہو جو بذات خود ایک ریکارڈ سازمختصر ترین وقت ہے کیونکہ عموماً کسی محفوظ و کارگر ویکسین کی ایجاد میں ایک دہائی کا عرصہ لگتا ہے۔1967 میں mumps کی ویکسین کی تیاری میں تیزترین وقت چار سال لگ گئے تھے۔ایک 90 فیصد سے زیادہ کارگر ویکسین خسرہ کی ویکسین کے لگ بھگ کارگر ہوگی جو کہ 93 فیصد کارگر ہے۔
کامیاب ویکسین کی خبر کا امریکی اسٹاک مارکیٹ نے انتہائی گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔ نیویارک اسٹاک ایکسچینج ڈاؤ جونز 835 پوائنٹ اوپر بند ہوا، ہوائی کمپنیوں اور سمندری تفریحی جہاز ران کمپنیوں کے حصص میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔
حالیہ اندازوں کے مطابق دونوں کمپنیاں 2020 میں پانچ کروڑ ویکسین تیار کرسکیں گی 2021 میں یہ تعداد ایک ارب سے زائد ویکسین تیار کرپائیں گی۔ایک فرد کو دو ڈوز دئیے جائیں گے۔ حالانکہ دوا ساز کمپنیوں نے امریکہ حکومت سے ویکسین کی تحقیق اور تیاری کے لئے کوئی رقم نہیں لی لیکن گذشتہ جولائی میں انہوں نے امریکی حکومت (ٹرمپ سرکار) سے تقریباً دو ارب ڈالر کے عوض 100 ملین ویکسین فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ٹرمپ نے کئی مرتبہ عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ویکسین صدارتی انتخابات سے پہلے دریافت ہو جائے لیکن فائیزر نے مختلف وجوہات پر اس اعلان میں تاخیر کرنے کا فیصلہ کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کے انتخابی فوائد سے محروم کردیا۔فائیزر کے سی ای او نے ایک بیان میں کہا کہ ویکسین کے ٹرائل کے نتائج کے اعلان کی تاخیر کا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔