غدار غدار کی تکرار ذرا تھمے تو کوئی بات سمجھ میں بھی آئے۔ اصول یہ ہے کہ سیاست اور اس کی مصلحتیں اپنی اپنی لیکن ملک، اس کے مفادات اور دفاع سب سے افضل۔ سردار ایاز صادق کسی کی کانپتی ٹانگوں کا انکشاف کریں یا فواد چوہدری پلوامہ حملے کی ذمہ داری پاکستان کے کھاتے میں ڈالیں، دونوں غلط۔
سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسے حادثات ہو کیوں رہے ہیں؟ اگر دل و دماغ پر اندھی نفرت اور اندھی محبت کی پٹی نہ بندھی ہو تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے حادثات شدت جذبات اور مدمقابل کو زندہ درگور کرنے کی منہ زور خواہش کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔
یہ بات مثال سے سمجھنی نسبتآ آسان ہوگی۔ ایک حکومت نے بلوچستان کی سر زمین سے جاسوس کو گرفتار کیا۔ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا مجرم تاحال پاکستان کی گرفت میں ہے لیکن مجرم کو پکڑنے والا گردن زدنی، فضائیہ کے شاہینوں کے دلیرانہ حملے میں دشمن کے چھکے چھڑا دیے گئے، ابھی نندن پکڑا بھی گیا اور چھوڑا بھی گیا۔ پھر بات کچھ کھلی تو سردار ایاز صادق نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو نہیں کہنی چاہیے تھی۔ جواب میں ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بجائے گرم دماغی سے کام لے کر پلوامہ کا ڈھول گلے میں ڈال لیا گیا۔
دونوں ہی باتیں معیوب ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ دونوں معیوب باتیں بڑھی ہوئی نفرت اور دشمن کا ناک منھ گھٹنے سے زمین پر رگڑ دینے کی افسوس ناک خواہش نیز اس بے انصافی کا نتیجہ ہیں کہ تیرے جرم کی سزا تو پھانسی کا پھندا اور میرا جرم کوئی جرم ہی نہیں۔
اب ایاز صادق غیر مشروط معافی مانگیں یا فواد چوہدری کی معافی کی آڑ میں معذرت کریں، قومی معاملات کو بے انصافی سے دیکھنے اور پرکھنے کاجو سلسلہ چل نکلا ہے، یہ ختم نہیں ہو گا جب تک دل صاف نہیں ہوتے اور جرم اور بے گناہی کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا چلن عام نہیں ہوتا۔
حرف آخر یہ کہ نفرت کاسلسلہ یہیں روک دیا جائے، یہ بریک ابھی نہ لگی تو اپنے بے پناہ وزن اور بے اندازہ رفتار گرنے والا اسکائی لیب سب کچھ تباہ کردے گا۔