ایک نئے عادلانہ نظام زندگی کا تصّور کرنا آسان نہیں۔ اور انسانوں کے لیے تو یہ ویسے بھی مشکل ہے۔ کیوں کہ انسان اپنے تعصبات اور اپنی پسند اور ناپسند سے بلند ہونا چاہے بھی تو نہیں ہوسکتا۔ یہ کام صرف خدا کر سکتا ہے __ اور خدا اس طرح کر سکتا ہے کہ وہ ایسے کسی عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ کسی پاکیزہ و پاک قلب پر القا کر دے۔ لیکن کیا ایسا کوئی پاک اور پاکیزہ قلب ہے؟ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ جو نیا عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے وہ من جانب خدا ہی ہے۔ اور پھر سب سے بڑا مسئلہ نفاذ کا ہے۔ کسی عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ پیش کرنا ایک نظری معاملہ ہے اور اسے نافذ کرنا ایک عملی صورت حال ہے جس کے لیے قوت نافذہ کی موجودگی ضروری ہے۔ دنیا کے چالاک اور عیّار لوگوں نے جس مکرو فریب سے دنیا کا نظام اپنے ہاتھوںمیں لے رکھا ہے اور ان کی گرفت جتنی مضبوط ہے اس نظام پر کہ اس گرفت سے چھڑانے اور اس نظام کو تاراج کرنے کا تصّور بھی مشکل ہے۔ اور پھر یہ نظام دو ایک برسوں میں تو نافذ نہیں ہوا۔ صدیوں کے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد ہی یہ نظام رائج ہوا ہے چاہے وہ سرمایہ داری کی شکل میں ہو یا جمہوری نظام کی صورت میں۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کچھ نہیں عام انسان کو یا انسانوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنے کے سوا۔ اس مغالطے میں انسانوں کو ڈالنا کہ جو کچھ مظالم حکومتیں کرتی ہیں وہ تمھاری ہی آشیرباد اور تمھاری ہی مرضی سے کرتی ہیں اور تم چاہو تو اسے مسترد کرکے کوئی دوسری حکومت لے آؤ۔ بے چارہ عام آدمی یا سارے عام آدمی اس جھانسےمیں بہ آسانی آجاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دوسری حکومت بھی پہلی ہی حکومت کی توسیع ہے۔ ایک چور ہے تو دوسری حکومت ڈاکو __ ایک غاصب ہے تو دوسری حکومت ظالم بھی اور بے رحم بھی۔ کفن چور کا بیٹا بھی کفن چور ہی نہیں ہوتا، لاش کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اس ظالمانہ نظام زندگی کو مسترد کر دیں اور ظالم کا ہاتھ جھٹک دیں۔ اور اپنا نجات دہندہ خود تلاش کر یں۔ اس کام میں خدا ان کی مدد کرے گا۔
عام آدمی اور خاص آدمی کی یہ بحث پہلے کی جاچکی ہے۔ یاد دہانی کے لیے یہاں پہ ان کا اعادہ کیا جارہا ہے اسے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور پڑھ کر سوچنے کی۔
’’ایک عام آدمی کیسے زندگی گزارتا ہے؟
پیدا ہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے، شادی بیاہ کرتا، بچّے پیدا کرتا، انھیں پوستا پالتا اور پھر ایک دن زندگی گزارتے گزارتے دنیا سے گذر جاتا ہے۔ مٹی میں دفن ہوکر مٹی ہو جاتا ہے۔ کیا خدا نے اسی آدمی کو زمین پہ اپنا نائب اور خلیفہ بنایا تھا؟ کیا اسی کو اپنی وہ صفات بخشی تھیں کہ جس سے وہ دنیا کا نقشہ بدل دے۔ یا نائب اور خلیفہ جنھیں بنایا انھوں نےدنیا کو تبدیل کیا۔ تو پھر یہ آدمی جو عام سا ہے، جیسے عام سے جانور ہوتے ہیں، یہ عام آدمی ویسا ہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر احترامِ آدمیت کا مستحق یہ عام آدمی تو نہیں ہوسکتا۔ احترام و عزّت کے مستحق وہ ہیں جو دنیا کو بدلتے ہیں اور عام آدمی کے لیے دنیا کی زندگی کو سہل اور آسودہ بناتے ہیں۔ کیوں کہ ساری ایجادات، سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ سہولتوں اور آسائشوں سے فائدہ عام آدمی ہی کو پہنچتا ہے۔ جب تک دنیا میں بادشاہی کا نظام رہا، عام آدمی بے حیثیت تھا، اس کا تذکرہ تاریخوں میں نہیں ملتا۔ تاریخ میں تذکرہ بادشاہوں کا ملتا ہے۔ عام آدمی اہرام مصر بناتا رہا، تاج محل تعمیر کرتا رہا، دیوار چین اٹھاتا رہا۔ لیکن تاریخ میں فراعنہ مصر اور شاہجہاں بادشاہ اور چینی حکمرانوں کا تذکرہ تو آتا ہے۔ اس عام آدمی کا کہیں ذکر نہیں آتا جس نے یہ سارے کارنامے انجام دیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ خیال وجود پر مقدم ہے۔ اہرام مصر، تاج محل اور دیوار چین کی تعمیر کا خیال جن حکمرانوں کے ذہنوں میں آیا، وہ خیال ہی ان عجائبات کو وجود میں لانے کا محرک بنا۔ اصل اہمیت خیال کی ہے۔ خیال نہ ہو تو کوئی ایجاد وجودمیں نہ آسکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وجود سے پہلے وجود کا خیال ہے، تصّور ہے جو تخیل میں صورت پذیر ہوتا ہے اور تب جاکے وہ خیال حقیقت بنتا ہے۔ خدا نے بھی اس کائنات کو خلق کرنے سے پہلے اس کا تصّور کیا۔ اور تصّور کی تکمیل کے بعد اس کائنات کی تخلیق صورت پذیر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ذہن کو کام میں لاتے ہیں، ان کی قدر قیمت جسمانی کام کرنے والوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ خدا نے ذہن اور تخیّل سے کام کرنے والوں ہی کو اپنا نائب اور خلیفہ بنایا اور اس لیے بنایا کہ وہ ان لوگوں کی خدمت کریں جو جسم سے اپنی روٹی روزگار کماتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا نے عام آدمی کے لیے سائنس دان، ماہر تعمیرات یعنی انجینئر، ہوش مند حکمراں اور صوفی و ولی پیدا کیے تاکہ عام آدمی کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کر سکیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دنیا میں سائنس داں، انجینئر اور ساتھ میں بڑے بڑے صوفی اور ولی پیدا ہوئے جنھوں نے عام آدمی کے جسمانی اور روحانی تقاضوں کو پورا کیا۔ لیکن اس نے حکمرانی کا فریضہ انسانوں ہی پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسا طرز حکمرانی چاہیں، اختیار کریں۔ آسمانی صحائف میں بے شک ایسے نبیوں کا تذکرہ ملتا ہے جو بادشاہ اور حکمراں بھی تھے۔ لیکن ان کی بادشاہی کی حیثیت ضمنی تھی، ان کی اصل حیثیت، اصل پہچان نبی کی تھی۔ اس لیے آسمانی صحائف میں ان کی طرز حکمرانی کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی لیکن ان کی نبوت اور رسالت اور ان کے واقعات کو اس طرح بیان کیا گیا کہ انھیں جمع کرکے ’’قصص الانبیاء‘‘ جیسی کتابیں تالیف کی گئیں۔ کوئی کتاب ان نبیوں کی بادشاہت کی بابت الگ سے مرتب نہیں کی گئی کہ تفاصیل دستیاب ہی نہیں۔ جہاں تک معاملہ اسلام کا ہے، نبی ﷺ کی بھی دو حیثیتیں تھیں۔ رسول بھی تھے اور پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ لیکن ریاست کے بانی کی حیثیت میں بھی وہ رسول ہی رہے۔ انھوں نے بادشاہوں سے خط و کتابت کی بھی تو دعوت اسلام کے لیے، جنگیں لڑیں بھی تو غلبۂ دین کے لیے۔ انھوں نے بھی طرز حکمرانی کے بارے میں اپنے بعد آنے والوں کو کوئی ہدایت نہیں دی۔ یہاں تک کہ اپنا کوئی جانشین بھی مقرّر نہیں کیا۔ کچھ اشارے احادیث میں ملتے ہیں لیکن اُمّت میں بھی اس پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد جو خلفا آئے انھوں نے جانشینی کے لیے کوئی یکساں طریقۂ کار نہیں اپنایا۔ ہر خلیفہ نے جانشینی کے لیے الگ طریقہ مقرّر کیا۔ یہاں تک کہ خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور صدیوں تک دنیائے اسلام میں ملوکیت ہی کو فروغ ملتا رہا۔ کہیں خلافت آئی بھی تو وہ رسمی خلافت تھی اور ملوکیت کی بدلی ہوئی شکل تھی۔ دنیائے اسلام میں بتدریج جو تبدیلی آنی شروع ہوئی اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، وہ مغرب کی دین ہے۔ مغرب نے ایک طویل تاریخی جدوجہد کے بعدجمہوریت کا جدید نظام متعارف کرایا، جس کا ابتدائی خاکہ یونان میں اور تفصیلی خاکہ اسلام کے دور خلافت میں پیش کیا گیا۔ جمہوریت کیا ہے؟ عام آدمی کی اہمیت، اس کی رائے کی اہمیت، اس کے مسائل کی اہمیت اور اس اہمیت کو حقیقت بنانے کے لیے ایک نظام کا خاکہ جس میں انتخابات، پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کو مرکزی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ یہ تجربہ ایک مختصر عرصے کے لیے کامیاب رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ کُھلا کہ جدید جمہوری نظام میں بھی عام آدمی کی نجات نہیں۔ اس نظام کو بھی سرمایہ داروں اور کچھ ملکوں میں جاگیرداروں نے ہائی جیک کر لیا۔ اپنے ملک کی صورت حال سب کے سامنے ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج جدید جمہوری نظام ناکامی سے دوچار ہے اس پر بھی اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ ناکامی اور اس کے اسباب گنوانابیکار ہے۔ لیکن دنیا اس جمہوری نظام کو اس لیے سینے سے لگائے ہے کہ اس کے سامنے دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ کوئی دوسرا نظام ایسا ہے ہی نہیں جو اس نظام کی جگہ لے سکے۔ اشتراکیت سے دنیا کو کچھ امید بندھی تھی لیکن یہ تجربہ روس اور چین میں ناکام ہوا اور وہاں بھی سرمایہ داری نے اپنے ڈیرے جما لیے۔اب دنیا کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں جمہوریت کی خوبیاں اور فائدے بھی ہوں اور اس کے نقائص و نقصانات بھی نہ ہوں۔ یہ نظام کون وضع کرے گا؟ کہاں سے آئے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی ذمہ داری ماہرین سیاسیات اور دانش وروں کی ہے جن کی ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں۔ یہ اہل علم اور دانش ور ہمارے ٹی وی چینلوں پر پابندی سے آتے رہتے ہیں، اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس پہ غور کریں اور اپنی رائے پیش کریں۔ باہمی مکالمے اور گفتگو ہی سے ہم ایسے متبادل نظام کا خاکہ وضع کر سکتے ہیں۔