دنیا کی تہذیبیں اس بات کی گواہ ہیں کہ جن قوموں نے ترقی کی اور خود کو منوایا وہ علم دوست تھیں اور تعلیم کی اہمیت سے آشنا تھیں۔ جب بھی کسی متمدن اور مہذب قوم اور معاشرے کا ذکر کیا جائے گا تو وہاں کے محققین، ادبا اور کتب خانوں کو بھی یاد کیا جائے گا۔ تاریخی، معاشرتی ، مذہبی اور ہر اعتبار س بنے کتابوں کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے۔ تمام مذاہب نے اپنے رہنما اصول، ضابطہء حیات،اور فرمودات کتابوں کے زریعے پہنچائے۔ دین اسلام میں وحی کا پہلا لفظ “اقرا”ہے جس کے معنی’ ہیں “پڑھ” ۔ جب لفظ ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے اس وقت بھی قدیم مصر میں اشکال یا pictorial form میں ابلاغ کیا جاتا تھا۔پھر لفظ ایجاد ہوئے ، قلمی کتابیں تحریر کی جانے لگیں اور ان معلومات کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے دور دراز کے کتب خانوں تک پہنچا جانےلگا۔ کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار برس قدیم ہے جو ہمیں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی ہے۔ ان ہی کتب خانوں سے استفادہ کرکے بڑے بڑے فلسفی، مفکر،محققین اور دانشوروں نے نئ نئ دریا فتیں کیں ، ایجاد ات کیں اور دنیا میں انقلابات برپا کیے۔ کسی بھی قوم کی ذہنی بلندی اور روشن خیالی کا سراغ اس کےکتب خانوں سےملتا ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ اقوام مطالعے کے کلچر کو پروان چڑھاتی ہیں۔
کتب خانے نہ صرف مطالعے کے شوقین افراد کی علمی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ تحقیق کرنے والوں کے لیے مرکزی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں.