ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کابُل شہر کے نزدیک ایک بڑا ہشیار ہُدہُد رہتا تھا۔ باغ کے ایک درخت پر اس کا گھونسلا تھا۔ ایک بڑھیا بھی اسی باغ میں رہتی تھی۔ وہ ہر روز روٹی کے چھوٹے چھوٹے ریزے چھت پر ڈال آتی۔ ہد ہد انھیں مزے مزے سے کھاتا۔ جلد ہی دونو میں دوستی ہوگئی اور وہ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا کرتے۔
ایک روز بڑھیا کسی کام سے گھر سے باہر نکلی۔ اس نے دیکھا کہ ہد ہد بھی اپنے گھونسلے سے نکل، درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا چہچہا رہا ہے۔
بڑھیا نے پوچھا: تمھیں معلوم ہے کیا ہونے جا رہا ہے؟
ہدہد بولا:میں ایسا بے خبر بھی نہیں، کیا کوئی تازہ خبر ہے؟
بڑھیا بولی:درخت کے نیچے نگاہ ڈالو، لڑکے بالے نظر آئے؟
ہد ہد بولا: ہاں دیکھ رہا ہوں۔ کھیل کود رہے ہیں۔
بڑھیا بولی: لگتا ہے تم ساری ہشیاری کے باوجود بڑے بھولے ہو۔ وہ کھیل نہیں رہے، جال بچھا رہے ہیں تاکہ تجھے اور تیرے ہم جنسوں کو اس میں پھانس لیں۔
ہد ہد بولا:اگر یہ سب کُچھ مجھے پھانسنے کے لیے ہے تو فضول ہے۔ میں بہت ہوشمند اور تیز طرار پرندہ ہوں اور ان کے دام میں آنے والا نہیں۔ تم ابھی تک مجھ سے اچھی طرح واقف نہیں۔ ان بچوں میں سے تیس چالیس آکر مجھ سے سیکھیں پڑھیں تب انھیں معلوم ہوگا کہ کسی پرندے کو کیسے پھانسا جاسکتا ہے۔ یہ تو رہے بچے ان کے بڑوں کے بڑے بھی مجھے جُل۱؎ نہیں دے سکتے“۔
بڑھیا بولی: پھر بھی ہُشیار رہنا اور ہاں اپنی عقل پر اتنا غرور نہ کرو۔ تمام پرندے جال میں پھنسنے سے پہلے ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں لیکن اچانک دانے دنکے کے لالچ میں جال میں آپھنستے ہیں۔
ہد ہد بولا: بڑی بی! خاطر جمع رکھو۔ مجھے اپنی حفاظت کا خیال ہے اور میرے ہوش و حواس قائم ہیں۔
بڑھیا بولی: امید ہے ایسا ہی ہوگا۔ پھر وہ باغ سے رخصت ہوئی اور دوپہر تک نہ لوٹی۔ لڑکے دوپہر تک باغ میں اپنے جال بچھائے رہے۔ پھر تھک ہار کر جال سمیٹ، دوپہر کے کھانے کے لیے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
ہد ہد نے دیکھا کہ باغ خالی ہوگیا ہے۔ وہ درخت کی شاخ سے گھر کے پیچھے اور وہاں سے ایک دوسرے درخت پر جابیٹھا۔ پھر آہستہ آہستہ نیچے آیا۔ اس کے دل میں آیا کہ کیوں نہ بچوں کے بکھیرے دانوں کا مزہ لے، سو زمین پر اُترا اور لگا دانے ڈھونڈنے۔ وہاں چاول تھے، چینا تھا اور گندم کے دانے __ آہا، کیا مزے کی چیزیں تھیں! اتفاق یہ ہوا تھا کہ ایک بچہ اپنا جال، جسے نازک سوتی ڈوری سے بُنا گیا تھا، وہیں بھول آیا تھا۔ ہد ہد دانہ چننے میں مگن تھا کہ اچانک اس کا پاؤں جال پر پڑا اور وہ اس میں جکڑا گیا۔ اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر اس کی جان نہ چھُوٹی:
؎ وہ ہوش مند پرندہ کہ جال سے تھا گریزاں
اسیرِ دام ہوا، باوجودِ عقل و فراست!
ہد ہد بے حد خوف زدہ ہوا اور تکلیف سے بے ہوش ہوگیا۔
عین اس موقعے پر بڑھیا گھر لوٹی۔ اس نے درختوں اور چھتوں پر ہر جگہ نظر دوڑائی مگر ہد ہد کا کوئی سراغ نہ پایا۔ حتّٰی کہ ایک درخت کے نزدیک کیا دیکھتی ہے کہ ہد ہد جال میں قید ہے۔
بڑھیا نے جال کی ڈوری کاٹ ڈالی، ہد ہد کو ہلایا جلایا حتّٰی کہ وہ ہوش میں آگیا۔ پھر بولی: دیکھا، آخر دانے کے لالچ میں تم دام میں آگئے!
ہد ہد بولا: ہاں ہاں میں جال میں پھنس گیا مگر اس قید کا سبب لالچ نہ تھا بلکہ قسمت کی خرابی تھی۔ سچ ہے تقدیر اور قسمت سے لڑا نہیں جاسکتا۔ لڑکوں بالوں نے جال صرف میری خاطر نہیں بچھایا تھا۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا، اس کی قسمت میں جال میں پھنسنا اور گرفتار ہونا لکھاتھا حتّٰی کہ میری جگہ کوئی کوّا بھی ہوتا توآپھنستا۔
بڑھیا بولی: ایسا ہرگز نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوّا ایک وہمی اور دیرآشنا پرندہ ہے اس لیے شاذ ہی جال میں پھنستا ہے۔ پھر یہ بھی کہ وہ نہ خوبصورت ہوتا ہے نہ خوش آواز کہ اسے پنجرے میں ڈالا جائے۔ نہ اس کا گوشت کھانے کے لائق کہ لوگ اسے شکار کرکے چٹ کر جائیں۔ اگر وہ کبھی جال میں پھنس بھی جائے تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اُڑ بھاگے۔ جال اور پنجرہ تو ہمیشہ خوبصورت اور خوش آواز پرندوں کے لیے ہوتا ہے یا حیوانوں کے لیے کہ ان کا گوشت کھایا جائے۔ لوگ چکور اور کبوتر کے گوشت کے شائق ہوتے ہیں اور ہد ہد، بلبل اور طوطوں کو پنجروں میں رکھنے کے متمنّی تاکہ ان کی خوبصورتی اور میٹھی آواز سے لطف اُٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جال تم اور تمھارے جیسوں کے لیے بچھایا جاتا ہے۔ تم ایک خوبصورت پرندے ہو، تم پر لازم ہے کہ خوب ہشیار رہو تاکہ قید سے بچ سکو۔ رہا تمھارا یہ کہنا کہ ایسا تمھاری بدقسمتی کی وجہ سے ہوا، تو یہ ایک بے معنی بات ہے۔ قسمت اور تقدیر کی باتیں سست اور شک و شبہے میں جلد گرفتار ہو جانے والے کرتے ہیں تاکہ اپنی غلطی کے لیے بہانہ ڈھونڈ سکیں۔ قسمت دراصل ہمارے اپنے ہی کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی اگر ہم صحیح طرح سوچ بچار کریں تو کامیاب رہتے ہیں اور اگر ہم سے خطا ہو یا ہم شک شبہے میں مبتلا ہوں توشکست سے دوچار ہوتے ہیں یا مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر تمھاری قسمت میں یہی لکھا تھا کہ تم جال میں پھنسو تو میں تمھیں نجات دلانے کے لیے کبھی وہاں نہ آتی۔ اب تم خود یکھ لو کہ جال سے رہا ہوگئے ہو۔ سو یہ کوئی قسمت کا کھیل نہ تھا۔ تمھارا جال میں پھنسنا تمھاری غفلت کے سبب تھا اور میرا وہاں آپہنچنا محض اتفاق تھا۔ اتفاق اندھا ہوتا ہے اور اس کی کوئی عقلی وجہ نہیں ہوتی۔ زندگی میں کبھی اچھا ہوتا ہے کبھی بُرا۔ میرا وقت پر آپہنچنا ایک اچھا اتفاق تھا کہ تجھے رہائی مل گئی۔ اگر لڑکے مجھ سے پہلے وہاں آدھمکتے تو یہ برا اتفاق ہوتا۔ وہ تمھیں جکڑ لیتے۔
ہد ہد بولا ”تم نے سچ کہا۔ میں نے اپنی تمام تر ہوش مندی کے باوجود غلطی کی۔ آئندہ کے لیے میں زیادہ محتاط رہوں گا۔
٭٭٭