2002 ء کے بعد سے حکومتی اقدامات کالج ایجوکیشن کو ڈسٹرب کرنے اور توڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔کبھی بورڈ آف گورنرز کا قیام اور کبھی کالجز کو یونیورسٹیز بنانے کا دلفریب نعرہ۔۔۔۔سب کچھ اس جمے جماۓ اور اچھے بھلے چلتے ہوۓ تعلیمی نظام میں شگاف ڈالنے کی عاقبت نااندیشانہ کوشش ہے۔اوپر سے BS-4 کے نام پر BA/BSc کی ڈگری کو فرسودہ قرار دینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔BS -4 کے نام پر ہماری تہذیبی اقدار کو تہس نہس کرنا بھی ایک اہم مقصد ہے۔FA/Fsc کے بعد اوائل عمری میں بیٹوں اور بیٹیوں کو ” کو ایجوکیشن” میں دھکیلنے سے ہمیں ایک ایسے مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے جس کا تصور ہی سوہان روح سے کم نہیں۔ نئی نسل کے اخلاقی زوال پر والدین کا عدم اطمینان ہر کسی کے لۓ پریشان کن بنا ہوا ہے۔ سوال یہ کہ اس وقت جو پاکستان ہے وہ 1947 والا تو نہیں۔اس کے مختلف شعبوں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری انہی سرکاری کالجوں سے BA/BSc اور انہی سرکاری یونیورسٹیوں سے MA/Msc کے فارغ التحصیل طلبہ کی مرہون منت ہے۔
پنجاب کے 26 بڑے کالجوں میں بورڈز آف گورنرز کے خلاف (2012-2010) چلنے والی طلبہ،اساتذہ،والدین اور سول سوسائٹی کی تاریخ ساز احتجاجی تحریک جس کی قیادت اس وقت پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر زاہد احمد شیخ،سینئر نائب صدر پروفیسرحنیف عباسی اور جنرل سیکریٹری سید تنویر شاہ کر رہے تھے،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کےسویو موٹو ایکشن(سول سوسائٹی کی طرف سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم،معروف قانون دان عابد حسن منٹو اور سپریم کورٹ کےسینئر وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا عدالت میں پیش ہوۓ) اور بعد ازاں عدالت سے پنجاب حکومت کی پسپائی کے نتیجہ میں بورڈ آف گورنرز کے ذریعے کالجز کی نجکاری کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو موجودہ حکومت نیا منصوبہ سامنے لے آئی ہے۔
حکومت نے پہلے گورنمنٹ کالج چکوال اوراب مری کے دو کالجوں کو ختم کر کے کہسار یونیورسٹی بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔گورنمنٹ کالج چکوال کے اساتذہ اور ملازمین سراپا احتجاج ہیں کہ یہ پرائیویٹائزیشن کی طرف پہلا قدم ہے۔ مری جیسے انٹرنیشنل شہر میں تحصیل سطح کے دو کالجز کے خاتمے کے بعد ہزاروں طلبہ وطالبات کہاں جائیں گے؟ ظاہر ہے پرائیویٹ کالجز کی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوں گے۔لگتا ہے یہ فیصلہ بھی پرائیوٹ کالجز کی بڑی چینز کی جیبیں بھرنے کا باعث بنے گا۔ دنیا بھر میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جاتی ہیں،حکومت بھی بناۓ بلکہ آبادی کی ضرورت کے مطابق یہ عمل بہت ضروری بھی ہے۔ ایک یونیورسٹی کی ہیئت، نظام کار، انفراسٹرکچر اور فیکلٹی لیول کے تقاضے محدود رقبے اور محدود سٹاف کے کالج سے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ ماضی میں گورنمنٹ کالج لاہور، فیصل آباد، سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے کالجوں کو یونیورسٹیز کا درجہ دےکر کونسا معیار تعلیم بلند ہوا ہے! فیسوں میں اضافہ، ڈنگ ٹپاؤ لیکچر پالیسی، کو ایجوکیشن اور ممی ڈیڈی کلچر سے ان کالجز کا سنجیدہ تعلیمی ماحول زوال پذیر ہوا ہے جس کی گواہی خود اساتذہ اور طلبہ دے رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ان بڑے کالجز کے نامور اور تجربہ کار اساتذہ کو یہاں سے نکال کر پوری کر دی گئی۔۔۔نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔۔۔ لہذا پنجاب بھر کے کالج اساتذہ کا نمایندہ فورم تحریک اساتذہ پنجاب حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ کالجز کو اپنی شناخت سمیت برقرار رکھا جاۓ اور صوبے میں جہاں ضرورت ہو نئ یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔
چکوال کالج اور مری گرلز اور بوائز کالج کو ان کے نام سے بحال کیا جاۓ۔ کالجز کی جگہ یونیورسٹیاں بنانے کے بجاۓ شہروں سے باہر
وسیع وعریض رقبے پر نئ یونیورسٹیاں تعمیر کی جائیں۔
پنجاب کے 650 سے زائد بوائز اور گرلز کالجز میں 6000 سے زائد لیکچررز کی خالی آسامیوں پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کا عمل فوری طور پر مکمل کیا جاۓ۔
***
ڈاکٹر ریاض محبوب تحریک اساتذہ پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات ہیں